صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۹/ تاریخ کو چاند مستور رہ جانے کی صورت میں حکم دیا ہے کہ تیس دن پورے کر لو ،اس میں چاند کو معدوم نہیں مانا گیا ہے؛ بل کہ مستور کہا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ نکلا کہ چاند اپنے افق پر موجود ہونے کے باوجود کسی عارض کی وجہ سے نظر نہ آئے، تو بھی شرعی حکم یہ ہے کہ تیس دن پورے کرو۔
غور کیجیے!کیا اس صورت میں (جب کہ چاند مستور ہے)،رؤیت کا امکان نہیں ہے؟ بلاشبہ ہے ،اگر نظر نہیں آرہا ہے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے امکانِ رؤیت کے باوجود، تیس دن پورے کرنے کا حکم دیا ہے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ محض رؤیت کا امکان ثبوتِ رؤیت کے لیے کافی نہیں ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے قبلے کی تعیین کے لیے فلکیاتی تحقیقات کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کی بحث کے ضمن میں اس مسئلے پر بھی کلام کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
ما صرَّح بہٖ علمائُ نا من عدم الاعتماد علیٰ قول أھل النجوم في دخول رمضان ؛ لأن ذالک مبني علی أنّ وجوب الصوم معلق برؤیۃ الھلال لحدیث ’’صوموا لرؤیتہٖ ‘‘ و تولید الھلال لیس مبنیاً علی الرؤیۃ ، بل علیٰ قواعد فلکیۃ، وھي و إن کانت صحیحۃ في نفسھا ؛لکن إذا کانت و لا دتہ في لیلۃ کذا فقد یریٰ فیھا الھلال و قد لا یریٰ ، و الشارع علق الوجوب علی الرؤیۃ لا علی الولادۃ ۔(۱)
یعنی ہمارے علمانے جورمضان کی آمدکے بارے میں اہلِ
------------------------------
(۱) رد المحتار:۳ /۳۵۵