جواب میں ان کویونیورسٹی آف لندن آبزرویٹری کے شعبہ فزکس وعلومِ فلکیات کے اسٹنٹ ڈائرکٹرنے جواپنی ماہرانہ رائے اورفیصلہ دیا،وہ یہ تھا:
’’آپ کے استفسار کے متعلق کہ آیا رصد گاہی سائنس داں کوئی ایسا معیار قائم کرنے کے قابل ہوچکے ہیں ، جس سے نیا چاند نمودار ہونے والی شام کی یقینی پیش گوئی کی جاسکے ؟
مجھے افسوس ہے کہ اس کاجواب نفی میں ہے، کچھ عرصہ قبل اس خاص مسئلے پر قضاۃ،سعودی عرب کے اراکین کے ساتھ میرے طویل مذاکرات ہوئے اور یہ معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں پیش کی جا نے والی کوئی بھی تجویزیقینی طور پر قرآنِ مجید کی ضروری شرائط سے تقریباً متصادم ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ در حقیقت رؤیتِ ہلال کے متعلق کوئی بھی مفروضہ قائم نہیں کیا جاسکتا ۔آخر میں لکھا ہے کہ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ میرے خیال میں کوئی ایسا سائنسی طریقہ نہیں ہے، جس سے کہ اس موقع پر اسلام کی ضروری شرائط پوری کی جاسکیں ‘‘۔(۱)
جناب ضیاء الدین صاحب نے آگے چل کر رصد گاہ گرین ویچ کی سائنس ریسرچ کونسل کے فلکیاتی معلوماتی قرطاس نمبر ۶/ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
’’ہر ماہ نئے چاند کے پہلی مرتبہ نظر آنے والی تاریخوں کے متعلق پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ؛کیوں کہ ایسے کوئی قابلِ اعتماد اور مکمل طور پر مستند مشاہدات موجود نہیں ہوتے، جنہیں ان شرائط کو
------------------------------
(۱) رؤیت ِہلال موجودہ دور میں : ۱۵