نہیں کیا گیا ہے‘‘۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تمام محققینِ اہل ِحساب سے یہ نقل فرمایاکہ
’’ رؤیت ِہلال کے بارے میں کوئی حساب اورضابطہ منضبط کرناخارج ازامکان ہے‘‘ اورلیجیے چوتھی صدی ہجری کے نامورفلاسفراورماہرِنجوم وفلکیات ’’ابوالریحان البیرونی‘‘ نے اپنی کتاب’’الآثارالباقیۃ ‘‘میں تمام علمائے فلکیات کا اجماعی نظریہ یہی بتایاہے کہ
فضائی وفلکیاتی حالات ایسے ہیں کہ جوکوئی غورکرے گا،تورؤیتِ ہلال کے ہونے یانہ ہونے کاکوئی قطعی فیصلہ ہرگزنہ کرسکے گا۔(۱)
نیز حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے ’’رؤیت ِہلال ‘‘ میں لکھاہے کہ
’’کشف الظنون‘‘ میں بہ حوالہ شمس الدین ،محمد بن علی خواجہ کاچالیس سال کاتجربہ یہی لکھاہے کہ ان معاملات میں کوئی صحیح اوریقینی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ،جس پراعتماد کیاجاسکے ‘‘۔(۲)
یہ بیانات اگرچہ بہت پرانے ہیں ؛ مگرصورتِ حال آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے؛بل کہ جدیدفلکیاتی علوم کے ماہرین بھی اس بات کااعادہ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔
چناں چہ ایک پاکستانی مصنف ’’جناب ضیاء الدین صاحب‘‘ نے اپنے رسالے ’’رؤیتِ ہلال موجودہ دورمیں ‘‘میں یہ لکھاہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں یونیورسٹی آف لندن آبزرویٹری اوررائل گرین ویچ آبزرویٹری سے استفسار کیا،اس کے
------------------------------
(۱) الآثار الباقیۃ ،۱۹۸ بہ حوالہ رؤیتِ ہلال :۲۵
(۲) رؤیت ِ ہلال:۴۸