فلکیاتی حساب و قاعدہ منضبط نہیں ہو سکتا۔ علامہ ابن ِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اس پر بہت تفصیل کے ساتھ مدلل کلام کیاہے، وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’ اعلم أن المحققین من أھل الحساب کلھم متفقون علیٰ أنہٗ لا یمکن ضبط الرؤیۃ بحساب بحیث یحکم بأنہٗ یری لا محالۃ ، أو لا یری البتۃ علی وجہ مطرد، وإنما قد یتفق ذٰلک أو لا یمکن بعض الأوقات ؛ و لھذا کان المعتنون بھذا الفن من الأمم : الروم والھند والفرس والعرب و غیرھم مثل بطلیموس الذي ھو مقدم ھٰولاء و من بعدھم قبل الإسلام وبعدہ لم ینسبوا إلیہ في الرؤیۃ حرفاً واحداً ‘‘۔ (۱)
p: ’’جان لو کہ اہلِ حساب میں سے تمام کے تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ رؤیت ِ ہلال کو کسی حساب سے منضبط کرناممکن نہیں کہ یہ حکم لگا یا جا سکے کہ وہ یقیناً دکھائی دے گا یا دکھائی نہ دے گا؛بل کہ رؤیت کبھی اتفاقاً ہو جاتی ہے اور بعض اوقات ممکن نہیں ہوتی اوریہی وجہ ہے کہ روم، ہندوستان،فارس اورعرب وغیرہ اقوام میں سے جو لوگ اس فن (فلکیات) سے دل چسپی و اعتنا کرنے والے تھے جیسے: بطلیموس، جو کہ ان لوگوں میں مقدم ہے اورجو ان کے بعد گزرے ہیں ؛ خواہ اسلام سے قبل یا اسلام کے بعد، ان کی طرف رؤیت کے بارے میں ایک حرف بھی منسوب
------------------------------
(۱) فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۵/۱۸۳