یعنی ہم امی امّت ہیں ، نہ لکھتے ہیں ، نہ حساب کر تے ہیں ، مہینہ کبھی اس طرح ہو تا ہے اور کبھی اس طرح (یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انگلیوں سے اشارہ فرمایا )راوی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ مہینہ کبھی انتیس دن کاہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا ۔
اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ ماہ کے آغاز و انجام کا مدار، ان حسابات پر نہیں ہے ؛چناں چہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرما تے ہیں :
’’ حدیث کاظاہر ِسیاق اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ (چاند کا)حکم حساب پر معلق نہیں ہے اور اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما یا’’اگر تم پرچاند مستور ہو جائے، تو تیس دن پورے کرلو ‘‘ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اہلِ حساب سے پو چھو۔ ‘‘ (۲)
اور علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قول و ارشاد خبر ہے، جس میں نہی شامل و پوشیدہ ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی کہ وہ امت،جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرنے والی ہے، وہ’’ امتِ وسط ‘‘ (اعتدال والی امت ہے)جو امّی ہے، نہ لکھتیہے، نہ حساب کرتی ہے ۔پس جو لکھتے اور حساب کرتے ہیں ، وہ اس (خاص)حکم میں اس امت میں سے نہ ہوں گے‘‘۔(۱)
------------------------------
(۲) فتح الباري : ۴/۱۶۳
(۱) فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۵/۱۶۵