أفطروا والشھر تسع وعشرون‘‘۔(۱)
p: رمضان سے ایک دن یادودن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی ایسی بات ہو، جس میں تم میں سے کو ئی ایک روزہ رکھتا ہو۔ روزہ نہ رکھو؛ جب تک چاند نہ دیکھو (پھر چاند دیکھنے کے بعد ) روزہ رکھو ؛ جب تک کہ پھر چاند دیکھو ، پس اگر چاند پر بادل حا ئل ہوجائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرلو ۔
اس روایت میں ترمذی نے ’’غیا بۃ ‘‘اور ابو داؤ د نے ’’ غمامۃ ‘‘اور نسائی نے ’’سحاب ‘‘روایت کیا ہے اور تینوں کا مطلب ایک ہے، وہ یہ کہ چاند کے اور ہمارے درمیا ن بادل یا اور کسی چیز کا پردہ حائل ہو جائے اور چاند نظر نہ آئے، تو تیس دن پورے کرو، اس سے صاف معلوم ہوا کہ مہینے کی آمد یا تو ۲۹؍ تاریخ کو رؤیت پر ہوگی، یا اگر رویت نہ ہو، تو تیس دن کی تکمیل کے بعد ہوگی؛ لہٰذا کسی حسابی طریقے یا آلات ِ رصدیہ کی بنیاد پر مہینہ کی آمد تسلیم نہیں کی جا ئے گی ۔
۲- جمہور علما کی دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فر ما یا :
»’’ إنا أمَّۃ أمِّیَّۃ لا نکتب و لا نحسب ، الشھر ھٰکذا و ھٰکذا ؛ یعني مرۃ تسعاً و عشرین و مرۃ ثلاثین ‘‘«(۱)
------------------------------
(۱) أبوداود: ۲۶۵ ،الرقم، ۲۳۲۷۔الترمذي:۲/۶۷،الرقم: ۶۸۸سنن الکبریٰ النسائي :۳/۱۰۳، الرقم،:۲۴۵۰
(۱) البخاري: ۲۵۴ ۱ ،الرقم: ۱۹۱۳۔ المسلم: ۵۴۵، الرقم:۱۰۷۹۔۱/۴۷۔ السنن الکبریٰ للنسائي : ۳/۱۰۷، الرقم: ۲۴۶۲-أبوداود:۲۶۴،الرقم: ۲۳۱۹