کہ تم چاند دیکھ لو اور روزہ نہ چھوڑو ،یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو؛ پس اگر تم پر چاند پوشید ہ ہو جائے، تو تیس دن کا حساب کر لو ۔
یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے اور مطلب و مقصد سب کا تقریباً یکساں ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انتیسویں تاریخ کو اگر چاند کی رؤیت ہوگئی،تو روزہ و افطار (رمضان و عید )اسی کے مطابق کریں گے اور اگر چاند نظر نہ آیا، تو تیس دن مکمل کرکے اگلے دن سے ماہ کا حساب ہو گا؛ خواہ فلکیاتی حساب کی رو سے نیا چاند انتیسویں کو ہو یا نہ ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔
اس حدیث میں خاص طور پر یہ بات غور کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۹/ تاریخ کو چاند مستور رہ جانے کی صورت میں تیس دن مکمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ مستور چیز معدوم نہیں ہوتی؛ بل کہ فی الواقع موجود ہوتی ہے؛البتہ اس پر کسی چیز کا پردہ پڑجانے کی وجہ سے نظروں سے مستور ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ بتانا ہے کہ چاند افق پر موجود ہو تے ہوئے بھی، اگر تمہاری نظروں سے بوجہِ گرد و غبار یا بوجہِ بادل پوشیدہ رہ جائے، تو تیس د ن کا مہینہ قرار دیا جائے اور یوں سمجھا جائے کہ ۲۹ /کو شرعاً چاند نہیں ہوا۔
اس مفہوم کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے، جو حضرت ابنِ عبا س رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
’’ لا تقدموا الشھر بصیام یوم ولا یومین إلا أن یکون شيء یصومہٗ أحدکم ۔ ولا تصوموا حتی تروہ ؛ ثم صوموا حتی تروہ، فإن حال دونہٗ غمامۃ ، فأتموا العدۃ ثلاثین، ثم