حساب دان کی اس خبر پر کہ وہ (چاند)نظر آئے گا یا نہیں آئے گا ؛ عمل کرنا جائز نہیں اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے اور اس بارے میں نہ کوئی پرانا اختلاف معلوم ہے نہ کوئی نیا اختلاف ۔ ہاں ! بعض متاخرین فقہا،جو تیسری صدی کے بعد ہوئے ہیں ، انہوں نے یہ گمان کیا کہ جب چاند مستور ہو جائے، تو حساب جاننے والے کو اپنے حساب پر عمل کرنا جائز ہے، یہ قول اگر چہ چاند کے مستور ہونے کی صورت کے ساتھ مقید اور حساب دان کے لیے مختص ہے؛ مگر شاذہے اور اس کے خلاف پہلے اجماع ہوچکا ہے۔‘‘ (۲)
اہلِ حق میں سے جو حضرات ِ فقہا و علما اہلِ حساب پر اعتماد کے قائل ہیں ، وہ گنے چنے ہیں ، جن کا خلافِ اجماع کے لیے مضر نہیں ہے، ان حضرات میں ایک’’ محمد بن مقاتل‘‘ کا نام آتا ہے، جو اہلِ حساب کے قول پر اس وقت اعتماد کر تے تھے؛ جب کہ ان کی ایک جماعت متفق ہوتی؛ مگر ان پر علامہ سر خسی رحمہ اللہ نے رد کیا ہے۔(۱ )
دوسرے’’ قاضی عبد الجبار ‘‘ہیں اور ایک صاحب ’’جمع العلوم ‘‘ہیں ، ان سے بھی نقل کیا
------------------------------
(۲) فتا ویٰ ابن تیمیۃ :۲۵/۱۳۳
(۱) قال ابن نجیم :’’ قال بعض أصحابنا : لا بأس بالاعتماد علیٰ قول المنجمین وعن محمد بن مقاتل أنہٗ کان یسألھم ویعتمد علی قولھم بعد أن یتفق علیٰ ذٰلک جماعۃ منھم ۔ ورَدَّہٗ الإمام السرخسي رحمہ اللہ بالحدیث ‘‘۔
(الأشباہ والنظائر، لابنِ نجیم:۲/۶۶)