بلکہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ اہلِ نجوم کے قول پر بالاجماع اعتماد نہیں کیاجاسکتا اور خود اہلِ نجوم کو بھی اپنے حساب پر عمل کرنا جائز نہیں ۔(۱)
شوافع کا مسلک ’’ الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ‘‘ میں یہ نقل کیاہے کہ
منجم کا قول خود اس کے حق میں اور اس کی تصدیق کرنے والے کے حق میں قابل اعتبار ہے۔(۲)
------------------------------
----- مضبوطۃ بدرجات محدودۃ ، فإنھا تختلف باختلاف حدۃ النظر وکلالہٖ ، وارتفاع المکان الذي یتراء ی فیہ الھلال ، وانخفاظہٖ ، وباختلاف صفاء الجو، وکدرہ ، وقدیراہ بعض الناس لثمان درجات ، وآخرون لا یرونہٗ لثنتي عشرۃ درجۃ ، فیجب طرحہٗ، والمعول بما عول علیہ الشرع‘‘۔ (حاشیۃ الروض المربع:۳/۳۵۹)
اوراحناف کا مسلک یہ ہے :
[لا عبرۃ بقول المؤقتین] لا یعتبر قولھم بالإجماع ، ولا یجوز للمنجم أن یعمل بحساب نفسہ ۔ (الشامي :۳/۳۵۴)
وأشارالمصنف إلیٰ أنہٗ لا عبرۃ بقول المنجمین۔ قال في غایۃ البیان: ومن قال
’’ یرجع فیہ إلیٰ قولھم ، فقد خالف الشرع‘‘ ۔(البحرالرائق:۲/۴۶۰)
و لا یعتبر قول المنجمین بالإجماع ، ومن رجع إلی قولھم فقد خالف الشرع۔ (البنایۃ للعیني: ۳/۶۱۳)
نقل في الھندیۃ: وھل یرجع إلیٰ أھل الخبرۃ العدول ممن یعرف علم النجوم؟ الصحیح أنہ لا یقبل ، کذا في ’’ سراج الوھاج ‘‘، ولا یجوز للمنجم أن یعمل بحساب نفسہٖ ، کذا في ’’معراج الدرایۃ‘‘ ۔ ( الفتاوی الہندیۃ :۱/۲۱۷)
(۱) الشامي :۳/۳۵۴
(۲) الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ۱/۵۵۱