حضرات نے اس پر غور وفکر کے بعد اپنی آرا کا اظہار بھی کیا ہے؛ چناں چہ حضراتِ ’’مالکیہ‘‘،’’حنابلہ‘‘ اور’’ حنفیہ‘‘ کے نزدیک حسابی طریقے یاآلاتِ رصدیہ کے ذیعے ثابت ہونے والے چاند پر عید و رمضان کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا؛بل کہ خود اس حسابی طریقے سے چاند معلوم کرنے والے کو بھی اپنی اس تحقیق پر عمل کرتے ہوئے رمضان اور عید کرنا واجب نہیں ۔(۱)
------------------------------
(۱) چناں چہ مالکیہ کامسلک یہ ہے :
’’فمن تسبب لہٗ بغیر البصر معتمداً علی الحساب لم یوجد في حقہ السبب ، فلا یرتب علیہ حکم ؛ فلو کان الإمام یریٰ الحساب فأثبت الھلال بہٖ ، لم یتبع لإجماع السلف علیٰ خلافہٖ ‘‘ ۔ (الذخیرۃ:۲/۴۹۳)
اورحنابلہ کامسلک یہ ہے کہ :
’’ من صام بنجوم أو حساب لم یجزئہ و إن أصاب۔ ولا یحکم بطلوع الھلال بھما ؛ لأنہٗ لیس بمستند شرعي‘‘ ۔ (کتاب الفروع:۴/۴۱۲-۴۱۳)
علامہ عاصمی نجدی حنبلی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے حوالے سے بڑا ہی زبردست کلام کیاہے، بہ غرضِ افادہ ، پوراکلام پیش ہے :
’’وأجمعوا علیٰ أنہٗ لااعتبار بالحساب ؛ لقولہ صلی اللہ علیہ و سلم ’’صوموا لرؤیتہٖ وأفطروا لرؤیتہٖ ‘‘ ولم یقل : للحساب۔ وقال الشیخ :المعتمد علیٰ الحساب في الہلال کما أنہٗ ضال في الشریعۃ ، مبتدع في الدین ، فھو مخطيء في العقل والحساب ، فإن العلماء بالھیئۃ یعرفون أن الرؤیۃ لاتنضبط بأمر حسابي ، وإنما غایۃ الحساب منھم إذا عدل ، أن یعرف کم بین الہلال و الشمس درجۃ ، وقت الغروب مثلاً ؛ لکن الرؤیۃ لیست -----------