۱- رمضان کاچاند۲۹/تاریخ کودیکھاجائے اوراس کااعلان کیاجائے، تواس صورت میں دوسرے علاقے کے اہلِ اسلام تک اس کی خبر بہ طریقِ موجب پہنچے، توان کے لیے درست ہے کہ اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے وہ روزہ رکھیں ؛ کیوں
کہ رمضان کے لیے حسبِ تصریحاتِ فقہ، قابلِ اعتمادخبرکافی ہے۔
۲- عیدکاچاند۲۹/تاریخ کودیکھ کراس کااعلان کیاگیاہو، تواس صورت میں دوسرے علاقوں کے مسلمان محض خبر پراعتمادنہیں کرسکتے ،بل کہ فقہا کی تصریحات سے ثابت ہے کہ عید کے چاند میں باقاعدہ شہادتِ شرعیہ کاہوناضروری ہے ؛ لہٰذا مقامی قاضی اورقاضی نہ ہونے کی صورت میں کوئی عالمِ ثقہ یامعتمدکمیٹی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ شہادت حاصل کرکے فیصلہ کرے اورمسلمانوں کے ذمہ ہوگاکہ ان کا انتظار کریں ۔(۱)
------------------------------
(۱) البحرالرائق میں ہے :’’وقبل بعلۃ خبر عدل ، ولو قنا أو أنثیٰ لرمضان ، وحرین أو حروحرتین للفطر؛ لأن صوم رمضان أمر دیني ، فأ شبہ روایۃ الأخبار، ولہذا لا یختص بلفظ الشھادۃ -إلیٰ أن قال - وأما ہلال الفطر فلأنہٗ تعلق بہٖ نفع العباد وھو الفطر ، فأشبہ سائر حقوقھم ، فیشترط فیہ ما یشترط في سائر حقوقھم من العدالۃ والحریۃ والعدد وعدم الحد في قذف ولفظ الشھادۃ والدعوی ،الخ۔‘‘ (البحرالرائق:۲/۲۶۶-۲۶۷)
اور درالمختارمیں ہے :’’ وقبل بلا دعویٰ وبلا لفظ ’’ أشھد ‘‘ وبلا حکم ومجلس قضاء ؛ لأنہٗ خبر لا شھادۃ للصوم مع علۃ کغیم وغبار، خبر عدل أو مستور -ولو کان العدل قنا أو أنثیٰ أو محدوداً في قذف تاب- وشرط للفطر مع العلۃ والعدالۃ نصاب الشھادۃ ولفظ ’’أشھد ‘‘ الخ۔‘‘(الشامي:۲/۳۸۵-۳۸۶)