اس سے معلوم ہواکہ رمضان کے چاند کی صورت میں خبرِصادق کے پہنچنے پراس کے مطابق عمل جائزہے؛ مگرعید کے لیے شہادت کے ضروری ہونے کی وجہ سے صرف کسی خبرپرافطاردرست نہیں ؛ لہٰذاقاضی کے فیصلے کاانتظارکرناچاہیے۔
جہاں قاضی ہو، وہاں کاحکم توصاف ہے کہ فیصلے کے لیے قضا کاانتظارضروری ہے ؛ البتہ جہاں قاضی نہ ہو،جیسے ہندوستان کے اکثر شہروں کا حال ہے، تواس سلسلے میں عظ صاحبِ ’’بحر و درمختار ‘‘دونوں نے تصریح کی ہے کہ ایسے علاقوں میں ضرورت کی وجہ سے شہادتِ شرعیہ ساقط ہوجائے گی اور صرف دوثقہ معتبرآدمیوں کی خبرپرافطارکیا جاسکتا ہے ۔(۱)
اورعلامہ بنوری رحمہ اللہ نے اسی پریہ فرمایاہے کہ
جہاں شرعی قاضی نہیں ہے، وہاں شہادتِ شرعیہ گزارنانہیں چاہیے؛ بل کہ عیدمیں صرف دوعادل آدمیوں کی خبرپرعیدکرنا چاہیے ۔ (۲)
------------------------------
(۱) علامہ حصکفی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ولوکان ببلدۃ لاحاکم فیھا ، صاموا بقول ثقۃ و أفطروا بإخبار عد لین مع العلۃ للضرورۃ -قولہٗ : لا حاکم فیھا : أي لا قاضي و لا والي کما في ’’ الفتح ‘‘ ، قولہ : للضرورۃ : أي ضرورۃ عدم وجود حاکم یشھد عندہ ‘‘ (الشامي:۲/۳۸۵-۳۸۶)
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے فرمایاکہ: ’’ أنھم لو کانوا ببلدۃ لا قاضي فیھا ولا والي ؛ فإن الناس یصومون بقول الثقۃ ویفطرون بإخبار عدلین للضرورۃ ۔ ‘‘
(البحرالرائق:۲/۲۶۷)
(۲) علامہ کی عبارت یہ ہے : ’’ اعلم أن بلاد الھند الیوم لیست فیھا حکومۃ إسلامیۃ ولیس فیھا دار قضاء المسلمین ، فالحکم في مثلھا الصوم بإخبار ثقۃ والفطر بقول ثقتین ، ولا ینبغي لعلماء العصر من المفتین المشي علیٰ ما ھو شان قضاء دار الإسلام من الشھادۃ وغیرھا۔‘‘ (معارف السنن:۵/۳۴۵)