مطلع سے الگ ہے؛ لہٰذا وہاں کی رویت کا یہاں یایہاں کی رویت کا وہاں اعتبار نہ ہو گا؛ چناں چہ’’ مجلسِ تحقیقات ِشرعیہ‘‘ کی محولہ بالا تجویز میں با اتفاق لکھا گیا ہے:
’’ہندوستان و پاکستان کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں ، مثلاً: نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہے۔علمائے ہندوپاک کاعمل ہمیشہ اسی پر رہا ہے اور غالباً تجربے سے بھی یہی ثابت ہے ،ان ملکوں کے شہروں میں اس قدر بُعدِ مسافت نہیں ہے کہ مہینے میں ایک دن کا فرق پڑتا ہو؛ اس بنیاد پر ان دونوں ملکوں میں جہاں بھی چاند دیکھا جائے، شرعی ثبوت کے بعد اس کاماننا، ان دونوں ملکوں کے تمام اہلِ شہر پر لازم ہو گا ،مصر و حجاز جیسے دُور دراز ملکوں کا مطلع ہندو پاک کے مطلع سے علاحدہ ہے ،یہاں کی رؤ یت ان ملکوں کے لیے اور ان ملکوں کی رؤیت یہاں والوں کے لیے ہر حالت میں لازم و قابلِ قبول نہیں ہے؛ اس لیے کہ ان میں اور ہند و پاک میں اتنی دوری ہے کہ عمو ماً ایک دن کا فرق ان میں واقع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات، اس سے بھی زیادہ ۔‘‘ (۱)
رہایہ سوال کہ اگران علاقوں میں سے کسی جگہ ۲۹/تاریخ کورؤیت ہوجائے اوروہاں اس کااعلان بھی کردیاجائے، تودوسرے علاقوں کے لوگ اس کے مطابق عمل کرسکتے ہیں یااپنے قاضی یاجہاں قاضی نہ ہو، وہاں رؤیت ِہلال کمیٹی کے فیصلے کاانتظار کریں ؟ اوریہ کہ کیا دوسر ے علاقوں کے قاضی یار ؤیت ِہلال کمیٹی اس اعلان کی پابندہوگی؟
اس کاجواب یہ ہے کہ یہاں دوصورتیں ہیں :
------------------------------
(۱) رؤیتِ ہلال از: مولانا میاں صاحب :۱۰۴ - ۱۰۵