جاسکے گی، تو یہ شہر و علاقے مختلف المطلع ہوں گے اور جن کے درمیان اس سے کم مسافت ہو، وہ ’’متحد المطلع ہوں ‘‘گے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے بہ حوالہ ’’جواہر‘‘ ، اس کو علامہ قہستانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے اور علامہ تاج تبریزی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ۲۴/ فرسخ سے کم میں مطلع کا اختلاف ممکن نہیں ہے۔ (۱)
محولہ بالا’’ مجلس ِتحقیقات ِشرعیہ‘‘ کی تجویز میں لکھا گیا ہے:
’’بلادِبعیدہ سے مراد یہ ہے کہ ان میں باہم اس قدر دوری واقع ہو کہ عاد تاًان کی رؤیت میں ایک دن کا فرق ہوتا ہو،ایک شہر میں ایک دن پہلے چاند نظر آتا ہے اور دوسرے میں ایک دن بعد ،ان بلاد میں اگر ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے لا زم کردی جائے، تو مہینہ کسی جگہ ۲۸؍دن کا رہ جائے گا اور کسی جگہ ۳۰؍ دن کا قرار پائے گا‘‘۔(۲)
یہ رائے نہایت متوازن ہونے کے ساتھ سہل العمل بھی ہے؛لہٰذا اسی پر عمل درآمد کرنا قرینِمصلحت معلوم ہو تاہے، باقی اس سلسلے میں فلکیاتی تحقیقات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے اور مطلع کی حدیں اس کے ذریعے مقرر کی جاسکتی ہیں ۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ہندو ستان و پاکستان کا مطلع ایک ہے، اس طر ح بعض قریبی ممالک ،جیسے : ’’بنگلہ دیش ‘‘اور ’’نیپال‘‘ کا مطلع بھی وہی ہے،جو ہندو ستان اور پاکستان کا مطلع ہے؛ لہٰذا ان میں سے ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ معتبر ہو گی؛ جب کہ وہ بہ طریقِ موجب دوسری جگہ پہنچ جائے اور عرب ممالک کا مطلع ہندوستان کے
------------------------------
(۱) قال الشامي: وقدر البعد الذي تختلف فیہ المطالع مسیرۃ شھر فأکثر علیٰ ما في القھستاني عن الجواھر ۔ (الشامي: ۳/۳۶۳)
(۲) رؤیتِ ہلال :از مولانا میاں صاحب:۱۰۴