پہلی جگہ کے مطلع سے مختلف ہو؛اس لیے اگر کوئی خبر پہلے پہنچ گئی، تو یہ سمجھا جاتا کہ مطلع ایک ہے؛ لہٰذا شرعاً اس رؤیت کے اعتبار کو لازم قرار دیا گیا اور اختلافِ مطلع کے عدمِ اعتبار کا قول اسی جہت سے آیا ہے؛پھر لوگوں نے اس قول کو وسعت دی اور ہر مطلع کے لیے عام کردیا؛مگر یہ میرے نزدیک مناسب نہیں ہے؛بل کہ ضروری ہے کہ اس زمانے کے احوال و ظروف اور ان کے اغراض و مقاصد کی بھی رعایت کی جائے‘‘۔(۱)
غرض یہ کہ بلادِبعیدہ میں اختلاف ِ مطالع کا معتبر ہو نا ہی قرین ِقیاس اور اکثر علما کا اختیار کر دہ قول و مذ ہب ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ شہروں میں قرب و بعد کا معیار کیا ہے؟بہ الفاظ ِ دیگر کن شہروں اور علاقوں کو ہم متحد المطلع اور کن کو مختلف المطلع قرار دیں ؟ تو اس سلسلے میں بھی فقہا کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے ؛بعض فقہائے کرام نے ایک ماہ کی مسافت کو معیار قرار دیاہے کہ جن دو شہروں کے مابین اتنی مسافت ہو ،جو ایک ماہ میں طے کی
------------------------------
(۱) معارف السنن:۵/۳۳۸ -۵/۳۳۹،اس تحریر کے بعد علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک تحریر ان کے فتاویٰ میں نظر سے گزری،جوعلامہ بنوری رحمہ اللہ کی بات کی تائید کرتی ہے؛ لہٰذا اس کونقل کرتا ہوں :
وھي ھٰذہٖ: فالضابط أن مدار ھٰذالأمر(أي قضاء الصوم ) علی البلوغ لقولہِ ’’صوموا لرؤیتہٖ ‘‘ فمن بلغ أنہٗ رأی ثبت في حقہٖ من غیر تحدید بمسافۃ أصلاً ، و ہٰذا یطابق ما ذکرہ ابن عبدالبر في طرفي المعمورۃ لایبلغ الخبر فیہما إلا بعد شھر فلا فائدۃ فیہ ؛ بخلاف الأماکن الذي یصل الخبر فیھا قبل انسلاخ الشھر، فإنھا محل الاعتبار۔ (مجموعۃ الفتاویٰ : ۲۵/۱۰۷)
(الناقل :شعیب اللّٰہ خان)