اختلاف ِ مطالع مسلَّم ہے ، یہ ایک واقعاتی چیز ہے،اس میں فقہائے کرام کا کوئی اختلاف نہیں ؛ البتہ فقہا اس بات میں مختلف ہیں کہ صوم و افطارِ صوم کے باب میں یہ اختلا فِ مطلع معتبر ہے یا نہیں ؟ محققینِ احناف اور علمائے امت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اس باب میں بھی اختلا فِ مطلع معتبر ہے ‘‘۔(۱)
اس تفصیل سے یہ بات نہایت وضا حت سے سامنے آگئی کہ جمہور علمائے احناف بھی (خصوصاً اس آخری دور میں )اسی کے قائل ہیں کہ اختلاف ِ مطالع کا اعتبار کیا جانا چاہیے ۔
اور علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اس جگہ ایک لطیف بات فرمائی ہے ،جس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ا ئمۂ مذا ہب کا قول بھی اختلافِ مطالع کے اعتبار ہی کا ہے، علامہ موصوف رحمہ اللہ کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’ا ئمۂ کرام سے تو صرف اختلافِ مطالع کے عدمِ اعتبار کاایک اجمالی قول بغیر کسی تفصیل اوربغیر قرب و بعد کی تفریق کے مطلقاً منقول ہے اور اس کامنشا یہ ہے کہ اس زمانے کے نظامِ مواصلات اور قطعِ مسافت کے نظا مِ معہود کے لحاظ سے ایک ماہ کے اندر اندراتنی دور کی مسافت کا طے کرنا،جس سے کہ چاند کا مطلع مختلف ہو جائے، ممکن نہ تھا؛یہ بات نا ممکن تھی کہ کوئی شخص چاند دیکھے، پھر ایک ماہ سے پہلے ایسی جگہ پہنچ جائے،جہاں کا مطلع
------------------------------
(۱) بہ حوالہ رؤیتِ ہلال از : مولانا محمد میاں صاحب :۱۰۴