نیز علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں جیسا کہ علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ نے شرحِ ترمذی میں نقل کیا ہے اور وہ خود بھی اسی کے قائل ہیں ۔(۱)
نیزعلامہ شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ نے’’ فتح الملہم ‘‘ میں اس کواصح وراجح قراردیاہے۔ (۲)
اور علامہ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ وہ اپنے رسالے’’رؤیت ِ ہلال‘‘ میں فرماتے ہیں :
ــــ’’ آج توہوائی جہازوں نے ساری دنیا کے مشرق و مغرب کو ایک کر ڈالا ہے،ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا قضیہ (مشکل مسئلہ) نہیں ؛ بل کہ روزمرہ کا واقعہ بن گیا ہے اور اس کے نتیجے میں اگر مشرق کی شہادت مغرب میں اورمغرب کی مشرق میں حجت مانی جائے، تو کسی جگہ مہینہ اٹھائیس دن کا ،کسی جگہ اکتیس دن کا ہونا لازم آجائے گا؛ اس لیے ایسے بلاد ِ بعیدہ میں جہاں مہینے کے دنوں میں کمی بیشی کا امکان ہو،اختلاف ِمطالع کا اعتبار کرنا ہی نا گزیر اور مسلک ِ حنفیہ کے عین مطابق ہوگا۔‘‘(۳)
’’مجلس ِتحقیقات ِشرعیہ ندوۃ العلما، لکھنو ‘‘ کے اجلاس منعقدہ ۳/۴ مئی ۱۹۶۷ء کی تجویز و فیصلہ، جس پر مختلف مکاتب ِ فکر کے علما اور مختلف اداروں کے نمائندوں نے اتفاق کیا تھا، اس میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ
’’ نفس الامر میں پوری دنیا کا مطلع ایک نہیں ہے؛بل کہ
------------------------------
(۱)راجع إلی معارف السنن : ۵/۳۳۷
(۲) فتح الملہم:۳/۱۱۳
(۳) رؤیت ہلال: ۴۷