۲- دوسرا یہ کہ اختلاف ِ مطالع کا ہر حال میں اعتبار کیا جائے ؛ لہٰذا ہر شہر والے اپنے مطلع اور رؤیت کے مطابق عمل کریں گے ۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بتایا کہ یہ قول حضرت عکرمہ ،حضرت قاسم ،حضرت سالم، و حضرت اسحاق رحمہم اللّٰہ سے مروی ہے۔(۳)
۳- تیسرا یہ کہ بلاد ِ بعیدہ میں اختلاف ِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور بلاد ِ قریبہ میں نہیں کیا جائے گا ، اسی مسلک کو اکثر فقہائے مذاہب نے ترجیح دی ہے اور خود حنفی فقہا نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، علامہ عبدالحیٔ لکھنؤی رحمہ اللہ نے یہ مسلک علامہ طحطاوی، صاحبِ تجرید القدوري ، صاحب فتاویٰ التاتار خانیۃ، صاحب الہدایۃ ، علامہ زیلعی رحمہم اللّٰہ وغیرہ فقہائے احناف سے نقل کیا ہے اور خود علامہ عبدالحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واصح المذاہب عقلاً ونقلاً ہمیں است کہ ہر دو بلدہ کہ فیما بین آنہا’’مسافتے باشد کہ دراں اختلاف ِ مطالع می شود و تقدیر ِمسافت یک ماہ است ، دریں صورت حکمِ رؤیت یک بلدہ ببلدہ دیگر نخواہد شد ، ودر بلادِ متقاربہ کہ مسافت کم از یک ماہ داشتہ باشد حکمِ رؤیت یک بلدہ ببلدۂ دیگر خواہد شد۔‘‘(۱)
p: عقلا ً ونقلاًسب سے زیادہ صحیح مذہب یہ ہے کہ جن دو شہروں میں اتنی مسافت ہو کہ اس میں مطلع بدل جاتا ہو،جس کا اندازہ یک ماہ کی مسافت ہے ، ان میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے معتبر نہ ہوگی اورقریبی شہروں میں جن کے درمیان ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو ، ایک شہر کی رؤیت کا حکم دوسرے شہرکے لیے ہوگا۔
------------------------------
(۳) قال ابن حجر: لأھل کل بلد رؤیتھم۔۔۔۔ وحکاہ ابن المنذ رعن عکرمۃ والقاسم وسالم وإسحاق رحمہم اللّٰہ۔فتح الباري: ۴/۱۵۸
(۱) مجموعۃ الفتاویٰ :۲ /۱۳۴-۱۳۵