غرض یہ کہ فقہائے کرام کے ما بین اختلاف ِ مطالع کے مسئلے میں جو بحث ہوئی ہے،وہ اختلاف ِ مطالع کے وجود کے بارے میں نہیں ہے، جیسا کہ بعض حقیقت سے نا واقف لوگ گمان کرتے ہیں ؛ بل کہ اختلاف اور بحث اس کے معتبر ہو نے یا نہ ہو نے میں ہے۔
فقہا کے اس میں تین مسلک ہیں :
۱- ایک یہ کہ اختلافِ مطالع کا مطلقاً کوئی اعتبار نہیں ، کتب ِفقہِ حنفیہ میں اس کو ظاہر الروایہ بتایا گیا ہے۔(۱)
------------------------------
…………خصوصاً جب کہ کتب ِمذہب کے خلاف ہو ؟‘‘ ( امداد الفتاویٰ : ۲/ ۱۰۸)
حضرت علامہ ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ رقم فرماتے ہیں :
واعلم أن عدم اعتبار اختلاف المطالع الظاھر أنہ عام لجمیع الأھلۃ ، وفرَّق العلامۃ الشامي بین ھلال رمضان وھلال ذي الحجۃ استناداً بما قالوافي الحج ، واستدلالاً بتعلق صوم رمضان بمطلق الرؤیۃ في قولہ صلی اللہ علیہ و سلم :’’صوموا لرؤیتہٖ و أفطروا لرؤیتہٖ ‘‘ ھٰذا بخلاف الأضحیۃ لا یصح ، واستنادہٗ بما قالوا في الحج ساقط ؛ لأن مبناہ دفع الحرج بعد وقوع الحج ، لا اعتبار اختلاف المطالع ، فإن تحققت شھادۃ قبل الحج تقبل ‘‘ ۔ (إعلاء السنن :۹/۱۲۰)
(۱) وفي البحر:’’ ولا عبرۃ باختلاف المطالع… وقیل یعتبر … والأول ظاھر الروایۃ ، وھو الأحوط۔کذا في فتح القدیر، وظاھر المذھب ، وعلیہ الفتویٰ ، کذا في الخلاصۃ ‘‘۔ (البحر الرائق : ۲/۴۷۱)
وفي الدر: ’’ واختلاف المطالع غیر معتبر علی [ظاھر] المذھب‘‘ ۔
(الدرالمختار مع الشامي، ۳/ ۳۶۳)
وفي النور: ’’وإذا ثبت في مطلع قطر لزم سائر الناس في ظاھر المذھب وعلیہ الفتویٰ ‘‘۔ (نورالإیضاح مع المراقي : (نور الایضاح مع المراقی : ۲۳۷)