مشرقی لوگوں کی رویت پر عمل کر نا واجب ہو گا ؟(۱)
اس سے واضح ہوا کہ مطالع میں فی نفسہٖ اختلاف کا ہونا، فقہائے کرام کے نزدیک مسلم ہے ،اختلاف اس کے معتبر ہو نے یا نہ ہونے میں ہے ، پھر علامہ شامی رحمہ اللہ کے مطابق اختلافِ مطالع کے معتبر ہو نے میں جو اختلاف ہے ،وہ صرف روزے کے بارے میں ہے،باقی امور جیسے: حج و قربانی وغیرہ کے متعلق اس اختلاف کا سبھی نے اعتبار کیا ہے۔(۲)
------------------------------
(۱) ردالمختار :۳/۳۶۳
(۲) یہ بات علامہ شامی رحمہ اللہ نے علما کے کلام سے اخذ و استنباط کرکے بیان کی ہے۔
چناں چہ لکھتے ہیں : ’’ یفھم من کلامھم في کتاب الحج أن اختلاف المطالع فیہ معتبر، فلا یلزمھم شيء لو ظھر أنہ رئي في بلدۃ أخریٰ قبلھم بیوم ، وھل یقال کذالک في حق الأضحیۃ لغیر الحجاج ؟ لم أرہ ، والظاھر نعم ، لأن اختلاف المطالع إنما لم یعتبر في الصوم لتعلقہٖ بمطلق الرؤیۃ ۔
(ردالمحتار:۳/۳۶۴)
مگر حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ’’ امدادالفتاویٰ ‘‘ میں اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے ’’إعلاء السنن ‘‘ میں اس سے اختلاف کیا ہے؛ چناں چہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علامہ شامی نے ہرچندکہ بنا عدمِ قبولِ شہادت کے اعتبار اختلافِ مطالع پرٹہرائی ہے ؛ مگر اس کوکسی نے صراحۃً نقل نہیں فرمایا؛بل کہ یفھم من کلامھم کہا،جس کے معنے یہ ہیں کہ’’ ان کے کلام سے یہ اعتبار مستخرج ہو تا ہے ، تواصل حنفیہ کے نزدیک کل جگہوں میں عدم اعتباراختلاف مطالع ٹہرا‘‘۔ کما ھو ظاہرمن إطلاقاتھم ۔
اوراستنباط علامہ شامی کامسئلۂ اضحیہ میں اسی بناپرہے کہ انہوں نے عدمِ قبولِ شہادت کو بعض مسائلِ حج میں مبنی براختلافِ مطالع ٹہرایا؛حال آں کہ عند التأمل یہ امر غیر صحیح ہے؛بل کہ اس عدمِ قبول کی وہی حرج ہے ،پس جب بنا ہی صحیح نہیں تومبنیٰ کیوں کر صحیح ہوسکتاہے، ……………