مثلاً: مغربی علاقوں میں چاند نظر آگیا؛ جب کہ ابھی مشرقی علاقوں میں نظر نہیں آیا، تو کیا اس اختلاف کا اعتبار کر کے یہ کہا جائے گا کہ جہاں نظر آگیا، وہاں کے لوگ روزہ رکھ لیں یا عید کر لیں اور جہاں نظر نہیں آیا،وہاں کے لوگ روزہ نہ رکھیں اور عید نہ کریں ؛یا اس اختلاف کا اعتبارنہ کرکے یہ حکم کیا جائے گا کہ اس رؤیتِ ہلال کی خبر دنیا کے کسی بھی خطے اور علاقے میں پہنچے،وہاں کے لوگوں پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا؟
مگر یہ بات یہاں ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ اس اختلاف کامنشا یہ نہیں ہے کہ چاند کے مطالع میں اختلاف ہونے یا نہ ہو نے میں اختلاف ہے، نہیں ! بل کہ مطالع میں اختلاف کا ہو نا ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس کو سبھی فقہا وعلما مانتے ہیں ؛ کیوں کہ یہ ایک واقعاتی چیز ہے، جو کچھ اختلاف ہے، وہ اس اختلاف ِمطالع کے مؤثر و معتبر ہونے میں ہے کہ بعض معتبر مانتے ہیں اور بعض غیر معتبر قرار دیتے ہیں ۔
چناں چہ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابد ین شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
جاننا چاہیے کہ اختلافِ مطالع میں بہ جائے خود کوئی نزاع و اختلاف نہیں ہے، اس معنیٰ کر کہ کبھی دو شہروں میں اتنا فاصلہ ہو تا ہے کہ ان میں سے ایک میں فلاں رات چاند طلوع ہو جاتا ہے، دوسرے میں نہیں -آگے چل کر فرمایا- بس اختلاف تو اس اختلافِ مطالع کے اعتبار میں ہے کہ کیا ہر قوم پر اپنے مطلع کا اعتبار کرنا واجب ہے اور دوسرے مطلع کے مطابق ان پر عمل لازم نہیں ہے یا اس اختلاف کا اعتبارنہیں ہے؛بل کہ جو پہلے دیکھا گیا ، اس پر عمل کرنا واجب ہے؟ حتیٰ کہ اگر مشرق میں جمعے کی رات چاند دیکھا گیا اور مغرب میں ہفتے کی رات ، تو مغربی لوگوں پر