سے لگے ہوے ہیں ؛ لیکن عہد ِ رسا لت میں پھر خلافت ِ راشدہ اور قرونِ خیر میں کہیں نظر سے نہیں گزرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ رضی اللہ عنھم نے اتنا اہتمام فرمایا ہوکہ لوگوں کو ان پہاڑوں کے کسی اونچے مقام پر چڑھ کر چاند دیکھنے کے لیے بھیجا ہو ‘‘ ۔(۱)
حاصل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرات ِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے رؤیت ِ ہلال کے لیے جو سادہ اور فطری اصول اپنایا تھا، وہی پسندیدہ ہے؛ لہٰذا آلا ت ِ جدیدہ اور فنونِ ریاضیہ سے اس میں مدد لینا،نہ واجب ہے، نہ مستحب ہے؛ بل کہ زیادہ سے زیادہ یہ صرف ’’جائز‘‘ ہے،بہ شرطیکہ وہ اسلامی اصول و ضابطوں کو مجروح نہ کرتے ہوں ،اگر ان سے اسلامی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی لازم آتی ہو، تو ان سے مدد لینا جائز بھی نہ ہوگا۔
نوٹ :ان اصول و ضوابط کا تذکرہ آئندہ صفحات میں اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔
ممکن ہے کہ ان حضرات کو جو تجدد پسند واقع ہوئے ہیں اور ان جدید آلات کو زمانے کی ضرو رت؛ بل کہ اہم ضرورت خیال کرتے ہیں ، یہ بات کھٹکے کہ اسلام رؤیت ِ ہلال کے لیے ان آ لات و فنون سے مدد لینے کو پسند نہیں کرتا؛ مگر جو حضرات بصارت ِ ظاہری کے ساتھ بصیرت ِ با طنی سے بھی سرفراز ہیں ، وہ یہ با ت بہ خوبی جانتے و سمجھتے ہیں کہ اسلام کا یہ طرز ِ عمل بڑی حکمت پر مبنی ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے، جو وطنی ،لسانی اور جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہو کر پورے عالم اور عالم کے ہر فرد کے لیے آیا ہے
اور اس کے احکام کے مکلف صرف وہ لوگ نہیں ہیں ، جو ریاضی کے فنون سے واقف اور آلاتِ جدیدہ سے بہرہ مند ہیں اور نہ صرف وہ لوگ،جو شہروں کی پر تکلف
------------------------------
(۱) آلات ِ جدیدہ:۱۷۴