کرلیا تھا ‘‘۔(۱)
انسائیکلو پیڈیا سے معلوم ہوا کہ ریاضی کے فنون،دنیا میں قدیم ترین زمانوں سے رائج و عام ہیں اور’’ جارج سارٹن ‘‘کی شہادت سے معلوم ہوا کہ تین ہزار برس قبلِ مسیح ہی سے بابل میں ان فنون کو فروغ حاصل ہو چکا تھا ،یہ الگ بات ہے کہ بعد کے ادوار کے لحاظ سے اس وقت یہ فنون محض ابتدائی شکل میں تھے؛ مگر اتنا تو یقینی ہے کہ زمانۂ رسالت و صحابہ تک اس میں بہت کچھ ترقی ہو چکی تھی اور رصد گاہوں کا قیام بھی اس وقت تک عمل میں آچکا تھا ۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
’’دنیا کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ ریا ضی کے یہ فنون آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہدِ مبارک سے بہت پہلے دنیا میں رائج تھے اور خود آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد ِ مبارک میں مصرو شام اور ہندوستان میں رصد گاہیں قائم تھیں ‘‘۔(۲)
رہی آلات ِ جدیدہ کی بات، تو اس کا جواب بھی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
عہدِ رسالت میں مانا کہ ہوائی جہاز نہ تھے؛ مگر مدینے میں سلع پہاڑ سامنے کھڑ اہے اس کے اوپر کچھ آبادی بھی ہے، جبلِ احد بھی ساتھ لگاہوا ہے،مکہ معظمہ تو سب طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، صفا اور مروہ کی پہاڑیاں اور جبلِ ابی قبیس بالکل شہر
------------------------------
(۱) انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا:۲ /۳۴۶۔مقالہ ASTRONOMY
(۲) رؤیت ِ ہلال :۱۵