کے ساتھ موجودہیں ؛لہٰذا ان سے مدد لیناچاہیے؛کیوں کہ ریاضی کے فنون عہدِرسالت وصحابہ میں ؛ بل کہ اس سے بہت پہلے دنیامیں رائج تھے اوراس وقت مختلف مقامات پربڑی بڑی رصدگاہیں بھی قائم تھیں ۔
انسائیکلوپیڈیابرٹانیکامیں ہے :
’’علم ریاضی (ASTRONOMY)بہت قدیم ترین زمانوں سے (اس کے شوقین لوگوں کے ذریعے ،جواپنے فارغ اوقات اوراپنی دولت کواس میں لگاتے ہیں اوران ماہرین کے ذریعے، جوان یونیورسٹیوں اورتعلیم گاہوں میں کام کرتے ہیں ،جوحکومتوں کی طرف سے چلائے جا تے ہیں یاذاتی طورپرچلائے جاتے ہیں ) چلاآرہاہے ،حکومتی سطح کی روایت بھی بہت قدیم زمانے سے قائم ہے؛ جب کہ مذہبی رہنمااوردوسرے اعلیٰ درجے کے سرکاری ملازم پہلے ہی سے علمِ ریاضی میں مشغول تھے؛ تاکہ موسم اورکیلنڈرمقررکیا جائے اورستاروں کے فال کامطالعہ کریں ‘‘۔ (۱)
جارج سارٹن نے مقدمۂ تاریخ ِسائنس میں لکھاہے :
’’بابلی فلکیات کازمانہ بڑاقدیم ہے اورقیاس یہ ہے کہ مغرب نے فلکیات کاعلم اسی سرچشمے سے حاصل کیاہے(آگے لکھتاہے ) ہفتے کے سات دن ،دن میں بارہ بارہ گھنٹوں کے دودور،زاویے کی شصت گانہ تقسیم ،بابل کے علمائے ہیئت نے بہ حوالہ آفتاب ،سیارۂ زہرہ کے طلوع وغروب کاحساب، ولادتِ مسیح سے بھی تین ہزارسال پہلے
------------------------------
(۱) مقدمہ تاریخ ِسائنس مترجَم :۱/۱۵۵