نہیں کہ ریا ضی کے حسابات سے چاندکا وجود اور پیدائش معلوم کرواوراس پر عمل کرو ،یا آلات ِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعے اس کاوجود دیکھو ؛بل کہ فرمایا: ’’ فإن غم علیکم ، فأکملوا العدۃ ثلاثین‘‘ یعنی اگر تم پر مستور ہو جائے، تو تیس دن پورے کر کے مہینہ ختم سمجھو۔‘‘ (۱)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’بل ظاھر السیاق یشعر بنفي تعلیق الحکم بالحساب أصلاً ، و یوضحہٗ قولہٗ في الحدیث الماضي: ’’فإن غم علیکم فأکملوا العدۃ ثلاثین ‘‘ولم یقل فاسئلوا أھل الحساب ۔‘‘(۲)
p: حدیث (جس میں ہے کہ ہم امی امت ہیں )اس کا ظاہر سیاق (چاندکے) حکم کے حساب پر معلق ہونے کی بالکلیہ نفی کرتا ہے اور اس کی توضیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشادکرتا ہے: ’’اگر تم پرچاند مستور ہو جائے ،تو تیس دن پورے کر لو ‘‘آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فر ما یا کہ: اہلِ حساب سے پو چھو۔
معلو م ہوا کہ رؤیتِ ہلال کے لیے جدید آلات اور ریاضی کے حسابات سے مدد لینا شر عاً ضروری نہیں ہے، اسی طرح یہ کوئی پسندیدہ و مستحب بات بھی نہیں ہے،زیادہ
سے زیادہ -بہ شرطے کہ حدودِ شرعیہ سے آگے نہ بڑھاجائے -مباح وجائز ہے اوریہ کہناصحیح نہیں کہ زمانۂ رسالت ودورِصحابہ میں جدید آلات اورریاضی کے حسابات کاسلسلہ نہ تھاکہ اس سے مدد لی جاتی اورآج یہ سب چیزیں فراوانی وترقی
------------------------------
(۱) رؤیت ہلال:۱۲
(۲) فتح الباري : ۴/۱۶۳