چیزوں کوقریب اورچھوٹی چیزوں کوبڑی بناکرپیش کرتے ہیں ؛ نیز فضا میں اڑکر، ان اشیا کا مشاہدہ و معا ئنہ کرا دینے والے آ لات بھی موجود و مروج ہو گئے ہیں ،جو نیچے سے قطعی طور پر نظر نہیں آسکتے، پھر ا ن میں تنوع بھی ہے، جو بیان سے باہر ہے۔ یہ دیکھ کر یہ سوال پیدا ہونا قدرتی بات ہے کہ رؤیت ِ ہلال میں ان چیزوں سے مدد لینا شرعاًــکیا درجہ و حیثیت رکھتا ہے؟
یہ تو واضح ہے کہ رؤیت ِ ہلال کے لیے ، ان جدید آلات (مثلاً:دور بین، خورد بین ، ہوائی جہاز) کا استعمال واجب و ضروری نہیں ہے، ضروری تو صرف اس قدر ہے کہ فطری اصول کے مطابق چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے، اگر نظر آجائے، تو ٹھیک ؛ ورنہ مہینے کو تیس دن کا تسلیم کرلیا جائے۔
چناں چہ حدیث میں واضح الفاظ میں ارشاد ہے:
فإن غُمّ علیکم ، فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثین۔(۱)
p: پس اگرچاندتم پرپوشیدہ ہوجائے تو تیس دن پورے کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ چاند نظر نہ آئے، تو ہم صرف اس بات کے مکلف ہیں کہ تیس دن پورے کرلیں ؛پہاڑوں پر چڑ ھ کر ،ہوائی جہاز پر اُڑ کر یا دور بین یا خورد بین کی مدد سے ، چاند دیکھنے کے مکلف نہیں ہیں اور نہ ہی ریاضی وفلکیات کے حسابات و علوم سے چاند معلوم کرنے کے مکلف ہیں ۔مذکورہ بالا حدیث کو پیش کرکے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یعنی تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں ،توپھر تم اس کے مکلف
------------------------------
(۱) البخاري:۲۵۳،الرقم:۱۹۰۹،واللفظ لہ، المسلم:۵۴۶،الرقم:۱۰۸۱ ، السنن الکبریٰ للنسائي : ۳/۱۰۰، الرقم: ۲۴۳۹ ، الدارمي :۱۰۴۹،الرقم:۱۷۲۷۔