محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ وغیرہ نے زکات اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے نوٹ سے ادا کرنے پر یہ بیان کیا ہے کہ زکات و صدقہ ادا نہ ہوگا؛ تا وقتے کہ وہ صدقہ لینے والا شخص اس نوٹ کو نقد (CASH)نہ کرالے ،جب وہ نقد کرالے گا، تو ادا ہوجائے گی؛ ورنہ اگر خدانہ خواستہ نوٹ نقد کرانے سے پہلے گم ہوجائے، تو زکات و صدقہ ادا ہی نہ ہوگا ۔(۱)
مگر دوسرے علما نے موجودہ حالات کے پیش ِنظر اس کو بھی جائز قرار دیا ہے
------------------------------
(۱) چناں چہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے استفتا کیاگیاکہ زکات میں نوٹ دینے سے زکات اد ا ہوجاتی ہے یانہیں ؟
توآپ نے فتویٰ دیاکہ : چوں کہ وہ مال نہیں ، محض سندِمال ہے ،اس لیے نوٹ دینے سے زکات ادا نہیں ہوتی-اورآگے لکھتے ہیں کہ مسکین کونوٹ دیااوراس مسکین نے اس کونقد یا کسی جنس کے بدلے فروخت کرکے اس نقدیاجنس پرقبضہ کرلیا، اب قبضے کے وقت زکات وغیرہ ادا ہوگئی اور اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوئیں ،مثلاً اس مسکین کے پاس سے وہ نوٹ ضائع ہوگیایااس نے اپنے قرض میں کسی کودے دیا، ان صورتوں میں زکات ادانہیں ہوئی۔(امدادالفتاویٰ :۲/۵-۶)
اسی طرح حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگرنوٹ زکات میں دیاگیا،توجس وقت وہ شخص اس کوروپیے سے بدل لے گا، اس وقت زکات اداہوجائے گی۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۶/۸۳)
حضرت مفتی ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ کابھی یہی قول ہے۔ (امدادالاحکام :۳/۱۳)
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کابھی یہی قول ہے۔ (کفایت المفتی :۴/۲۷۸ )