۔۔۔۔
------------------------------
۔۔۔۔ لیکن اسی کے ساتھ علامہ باجی مالکی رحمہ اللہ نے یہ قید بھی لگائی کہ یہ جواز اس وقت ہے کہ اضطرار یہاں تک پہنچادے کہ مردار کا کھانا اس کو جائز ہو جائے، تو اس کے لیے زکات جائز ہے ، اس شرط کو بعض فقہائے مالکیہ نے قبول کیا اور فرمایا کہ یہی ظاہر و متعین ہے اور بعض نے اس سے اختلاف کیا ہے ، جیسا کہ اوپر کے حوالوں سے معلوم ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مالکیہ کے یہاں بھی جواز ایک شرط سے مشروط ہے کہ حالت اضطرار ہو ،۔ ورنہ سیدوں کوزکات دینا ان کے یہاں بھی جائزنہیں ہے ؛ہاں بعض نے صرف حاجت کی وجہ سے بھی جائز قرار دیا ہے ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو ئی کہ حنفیہ ، شافعیہ و حنابلہ تو مطلقاً عدمِ جواز کے قائل ہیں اور یہاں کا اصل مذہب ہے اور جوامام ابو حنیفہ اور علامہ اصطخری سے دوسری روایت جواز کی مروی ہے، اس کو حنفیہ و شافعیہ نے رد کردیا ہے اور مالکیہ کے اکثر فقہا نے اگرچہ موجود حالات میں خمس نہ ملنے کی وجہ سے ان کو زکات دینے کا جواز اختیار کیا ہے ؛ مگر اس شرط سے کہ اضطرار پیدا ہو جائے اور اس کی وجہ سے مردار کھانا اس کو حلال ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ اس شرط کے ساتھ سبھی علما کے نزدیک سیدوں کو زکات دینا جائز ہوگا؛ کیوں کہ جب مردار کھانا ہی حلال ہو جائے، تو زکات کھانے میں کیا حرج ہو سکتا ہے ، تو یہ ایک انتہائی مجبوری کی صورت کا حکم ہے ۔
الغرض! اس روایت کی بنیاد پر فقہا نے جواز کو اختیار نہیں کیا؛ بل کہ ضرورت ہونے کے باوجود اس کو رد کیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ زکات کا ان کے حق میں منع ہونا، در اصل قرابتِ رسول و شرافت ِرسول کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔۔