وجہ اس کی یہ ہے کہ سیدوں کو اس سے احتراز کا حکم اس لیے ہے کہ زکات و صدقاتِ واجبہ لوگوں کا میل کچیل ہے ،اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بچائے رکھنا چاہتا ہے ،حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ائے بنی ہاشم! اپنے آپ کو روکے رکھو؛کیوں کہ صدقات، لوگوں کا غسالہ و میل کچیل ہے ۔(۱)
اور یہ وجہِ حرمت ہر زمانے میں موجود ہے ؛اس لیے سیدوں کو زکات و فطرہ نہ دینا چاہیے اور ان کو لینا بھی نہیں چاہیے اور خمس الخمس کو جو زکات و صدقات کا عوض بتا یا گیا ہے،جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اوپر منقول ہوا ،اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہو تا کہ اب موجودہ حالات میں ان کوزکات دینا درست ہے؛ کیوں کہ اس سے صرف یہ ثابت ہوا کہ زکات و صدقات سے ان کو محروم کرکے ،ان کے لیے دوسرا راستہ کھو لا گیا تھا،اب یہ راستہ بند ہوگیا ہے، تو اس کا دوسرا طریقہ ڈھونڈ ھنا چاہیے، یہ نہیں کہ جس چیز سے ان کو بچا کر رکھنے ہی کے لیے ان کو خمس الخمس دیا جا تا تھا،اسی راستے کو کھول دینے اور اسی میں ان کو ملوث کرنے کی کو شش کی جائے۔
الغرض! زکات کی طرح فطرہ بھی سیدوں کو نہیں دینا چاہیے اور نہ ان کو لینا چاہیے، اگر قرابت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کا احساس ہے، تو دینے والوں کو چاہیے کہ دوسرے اچھے مال سے ان کی خدمت کرکے ماجور ہو ں ۔(۲)
------------------------------
(۱) کنز العمال عن الطبراني کذافي إعلاء السنن :۹/۷۹
(۲) اسی مسئلے کے تعلق سے حضرت والانے حسب ِروایت نہایت محقق ومدلل اوربہت متوازن ومعتدل تحریرحال ہی میں سپردِقرطاس فرمائی ہے ،تحقیق پسنداحباب کی خدمت میں یہ مکمل تحریردرج ذیل کی جاتی ہے: --------