۔۔۔۔
------------------------------
سوال:
موجودہ دَور میں لوگ عام طور پر غیر ِزکات سے خرچ کرنے کے عادی نہیں ہیں ، زیادہ سے زیادہ صرف زکات نکالتے ہیں ، ان حالات میں سوائے زکات کے کسی اور مَد سے’’ سیدوں ‘‘ کو دینے والا کوئی نہیں ، اگر یہ کہہ دیا جائے کہ سیدوں کو زکات جائز نہیں ، تو غریب سیدوں کے گزارے کا مسئلہ بہت پریشان کن ہو گا، کیا ان حالات میں سیدوں کو زکات دینے کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟ اور کیا یہ مسئلہ متفقہ ہے ؟ اس میں احناف و دیگر ائمہ کیا کہتے ہیں ؟کیا امام ابو حنیفہ کی ایک روایت بھی ان کو دینے کے جواز کی موجود ہے ؟ (المستفتي: مولانا طارق )
الجواب:
سیدوں یعنی نبی ہاشم کو زکات دینے کی حرمت منصوص ہے ؛کیوں کہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اس سے منع کیا گیا ہے ۔ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
’’ إن ہٰذہٖ الصدقۃ إنما ہي أوساخ الناس ، ولا تحل لمحمد ولا لآل محمد ‘‘۔
p: یہ صدقہ تو بس لوگوں کا میل ہے اور محمد و آلِ محمد کے لیے حلال نہیں ۔
(الصحیح للمسلم : ۲۵۳۱،الصحیح لابن خزیمۃ: ۴/۵۵، أبو داود: ۲۹۸۷، النسائي: ۲۶۰۹ )
لہٰذا منصوص کے مقابلے میں کوئی اجتہاد و رائے معتبر نہیں ہو تی؛ پھر اس پر امت کااجماع بھی ہو چکا ہے، علامہ ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ لانعلم خلافاً فيأن بني ھاشم لا تحل لھم الصدقۃ المفروضۃ ‘‘
p: بنی ہاشم کوزکات دیناناجائزہونے کے مسئلے میں کسی اختلاف کاعلم نہیں ۔ (المغنی لابن قدامۃ : ۵ /۲۲۴)
اور علامہ نووی، شافعی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ ’’ فالزکاۃ حرام علی ۔۔۔۔