’’ و روی أبو عصمۃ عن الإمام رحمہ اللہ أنہٗ یجوز الدفع إلیٰ بني ہاشم في زمانہٖ ؛ لأن عوضہا وہو خمس الخمس لم یصل إلیہم لإہمال الناس أمر الغنائم و إیصالہا إلیٰ مستحقیہا، وإذا لم یصل إلیہم العوض عادوا إلی المعوض، کذا في البحر‘‘(۱)
p: ابو عصمہ نے بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے زمانے میں ہاشمی کو (زکات)دینا جائز قرار دیا ہے؛ کیوں کہ زکات کا عوض؛ یعنی غنیمت کا خمس الخمس ان لوگوں تک نہیں پہنچا ؛کیوں کہ لوگ اموالِ غنیمت میں اور اس کو مستحقین تک پہنچا نے میں ڈھیل برت رہے ہیں ، جب ان کو عوض نہ پہنچا، تو معوض یعنی زکات ملنا چاہیے ۔
حضرت مولاناعبد الوہاب صاحب رحمہ اللہ بانی’’ باقیات الصالحات،ویلور‘‘ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔(۲)
اور حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کو نقل فرما کر کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔(۳)
مگر ہمارے علما نے تصریح کی ہے کہ یہ قول معمول بہٖ نہیں ہے ،مفتیٰ بہٖ و معمول بہٖ یہی ہے کہ سید کو زکات و صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں ،ہی ظاہر الروایۃ ہے ۔ (۴)
------------------------------
(۱) الدرالمختارمع الشامي:۳/۲۹۹
(۲) فتاویٰ باقیات الصالحات : ۹۴
(۳) شرح معاني الآثار: ۲/۱۱
(۴) إعلاء السنن : ۹/۸۱،البحر الرائق :۲/۲۴۷