مدینہ واپس آئے، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے چاند کے بارے میں پوچھا؛انہوں نے عرض کیا کہ جمعہ کی شب میں دیکھا گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ نے بھی دیکھا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا ہے؛ اس لیے ہم تو برابر روزہ رکھیں گے، جب تک کہ تیس دن پورے نہ ہوجائیں یا ہم چاند دیکھ لیں ،حضرت کریب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا آپ کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا کہ نہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے ۔(۱)
ٌٌٔاس واقعے میں اگر چہ فقہی نقطئہ نظر سے کئی احتمالات ہیں کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے شام کی رؤیت کو اس لیے تسلیم نہ کیا ہو کہ مدینہ اور شام کے مطلع میں فرق ہے یا اس لیے کہ شہادت دینے والے تنہا حضرت کریب رضی اللہ عنہ تھے اور ایک آدمی کی
------------------------------
(۱) عن کریب رضی اللہ عنہ أن أم الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنھا بعثتہ إلیٰ معاویۃ بالشام رضی اللہ عنہ ۔ قال: فقدمتُ الشام ، فقضیت حاجتھا ، واستھل عليَّ رمضان وأنا بالشام ، فرأیت الھلال لیلۃ الجمعۃ ، ثم قدمتُ المدینۃ في آخر الشھر ، فسألني عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، ثم ذکر الھلال ، فقال: متیٰ رأیتم الھلال ؟ فقلت : رأیناہ لیلۃ الجمعۃ ، فقال : أنت رأیتہ ؟ فقلت : نعم ! ورآہ الناس ، وصاموا وصام معاویۃ رضی اللہ عنہ ، فقال: لکنا رأیناہ لیلۃ السبت فلا نزال نصوم حتیٰ نکمل ثلاثین أو نراہ ، فقلت : أَ وَلا تکتفي برؤیۃ معاویۃ و صیامہٗ ؟ فقال: لا! ھٰکذا أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔‘‘
(المسلم :۵۴۸، الرقم: ۱۰۸۷،الترمذي: ۲/۷۱،الرقم:۶۹۳، قال الترمذي : حدیث ابن عباس حدیث حسن ، صحیح، غریب،أبوداود:۲۶۶، الرقم: ۲۳۳۲،السنن الکبری للنسائي: ۳/۹۷،االرقم:۲۴۳۲)