ہے ؛البتہ اس سلسلے میں دوباتوں کوپیشِ نظررکھنا ضروری ہے:
ایک تویہ کہ کیاپوری دنیامیں ایک ہی دن عیدورمضان ہونے کامسئلہ ممکن العمل بھی ہے یانہیں ؟ظاہرہے کہ یہ ممکن نہیں ؛کیوں کہ مشرق و مغرب کے مابین فاصلوں کی وجہ سے ایک جگہ جمعہ ہوتاہے،تودوسری جگہ ابھی جمعرات کادن ہوتاہے اور تیسری جگہ ہفتے کادن شروع ہوچکاہوتاہے؛ ان حالات میں یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ہرجگہ رمضان وعیدمیں وحدت ہو؟اس لیے بس اس حدتک وحدت کااہتمام کیاجانا چاہیے،جہاں تک کہ وحدت کاامکان ہو،اس سے زیادہ کاوش فضول اوربے کارہے ۔
دوسری بات یہ کہ اسلام میں عید ورمضان کے ایک ہی دن ہونے کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہے کہ اسی کے پیچھے اپنی تمام کوششیں لگادی جائیں ؛اگروحدت میسرآجائے توٹھیک؛ورنہ اس میں رتی برابرکوئی قباحت نہیں کہ متعددجگہو ں پر متعدد ایام میں عید ورمضان ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اگرچہ آج کل کی طرح خبررسانی کی اتنی سہولتیں نہ تھیں اور اس وجہ سے پورے ملک کی خبروں کو جمع کرنا اور معلوم کرنا آسان نہ تھا،بل کہ ممکن بھی نہ تھا؛مگراس میں کیاشک ہے کہ مدینے کی قریبی آبادیوں وبستیوں سے چاندکی خبرمعلوم کرناچنداں مشکل کام نہ تھا؛ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اورحضراتِ صحابہ رضی اللہ عنھم نے کبھی اس کا اہتمام نہیں فرمایا؛کیایہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ اس کااہتمام کچھ ضروری نہیں اورنہ خاص اہمیت کاحامل ہے؟
حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنھم کے زمانے کایہ واقعہ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح میں درج کیا ہے کہ حضرت کریب رضی اللہ عنہ کو حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھا نے اپنے کسی کام سے شام روانہ کیا، وہاں حضرت کریب رضی اللہ عنہ نے رمضان کا چاندجمعہ کے دن دیکھا اور لوگوں نے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے روزہ بھی رکھا، پھر رمضان کے آخر میں حضرت کریب رضی اللہ عنہ