گواہی عید کے چاند میں معتبر نہیں ہو تی؛ مگر اس سے اتنا ضرور معلوم و ثابت ہوتا ہے کہ حضراتِ صحابہ کے عہد میں عید کی وحدت کا اہتمام نہیں تھا؛حال آں کہ اہلِ مدینہ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ شام سے خبر یا شہادت حاصل کرتے؛اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اس کی خاص اہمیت نہیں ہے۔
بعض حضرات یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس زمانے میں مختلف جگہوں کی خبروں کو معلوم کرنا ممکن نہ تھا اور اس کے لیے وسائل اور ذرائع موجود نہ تھے؛اس لیے انہوں نے اس کا اہتمام نہ کیا ،اس کا جواب حضرت مفتی محمد شفیع صا حب رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فر ما ئیے :
’’اس عہدِ مبارک میں اگر ہوائی جہاز، ریڈیو اور ٹیلیفون نہ تھے، تو تیز رفتار سانڈنیاں موجود تھیں ،جو ایک رات دن میں دور تک کی خبریں ؛ بل کہ شہادتیں لا سکتی تھیں ؛مگر حکیم الحکما صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی پسند نہ کیا کہ سانڈ نی سوار دوڑا کر مکے سے مدینہ یا رابغ کی خبریں بہم پہنچا ئیں ،شام اور مصر فتح ہونے کے بعد کوئی مشکل نہ تھی کہ وہاں کی شہادتیں ہر وقت سانڈنی سواروں کے ذریعے مدینہ طیبہ میں جمع کر لی جائیں ؛ مگر کہیں نظر سے نہیں گزرا کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنھم نے اس کا اہتمام فرمایا ہو۔‘‘ (۱)
حاصل یہ کہ رمضان وعید کی وحدت ویکسانیت کے لیے زیادہ کاوش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اورنہ یہ اس قدراہتمام کی چیز ہے؛ ہاں ! غلومیں پڑے بغیر اس کا اس حد تک اہتمام کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ موجودہ وسائل شرعی
------------------------------
(۱) آلات ِ جدیدہ کے شرعی احکام:۱۷۴