تھا؛پھر اس کے بعد شرم وحیاکی کمی اورپردے میں کوتاہی ہونے لگی، توصحابۂ کرام نے عورتوں کومسجد میں آنے سے روک دیااورمنع فرمادیا۔
چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے (جومزاج شناسِ رسول تھیں ) فرمایاکہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان باتوں کودیکھتے ،جوعورتوں نے ( بے پردگی وغیرہ کی) پیداکرلی ہیں ، تومسجد میں آنے سے ان کوضرور منع فرمادیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کومنع کردیاگیاتھا۔(۱)
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے دَور کے حالات کودیکھ کریہ فیصلہ کیاہے، تو غورکریں کہ موجودہ حالات میں ان کاکیافتویٰ ہوتا؟ اس بنا پر فقہائے حنفیہ نے مطلقاً عورتوں کومنع کردیاکہ وہ مسجد میں نہ آئیں ، جیساکہ فقہ کی معتبرکتابوں میں موجود ہے؛ البتہ بہت ہی بوڑھی عورت کواجازت دی ہے ۔(۲)
------------------------------
(۱) عن عمرۃ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنھا أنھا سمعت عائشۃ زوج النبي صلی اللہ علیہ و سلم تقول: لو أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم رأی ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني إسرائیل ، قال: قلت لعمرۃ : أنساء بني إسرائیل منعن المسجد؟ قالت:نعم!
(المسلم:۱۸۸،الرقم:۴۴۵،أبوداود:۸۵،الرقم،۵۶۹،مصنف عبد الرزاق: ۳/ ۱۴۹ ، الرقم:۵۱۱۲)
(۲) قال: ویکرہ لھن حضورالجماعات ، یعني الشواب منھن لما فیہ من خوف الفتنۃ ، ولابأس للعجوز أن تخرج في الفجر و المغرب والعشاء ، وھٰذا عند أبيحنیفۃ ، وقالا:یخرجن في الصلوات کلھا۔(الہدایۃ :۱/۳۷۴)
قال:[ویکرہ حضورھن الجماعۃ مطلقًا ] ولوعجوزا لیلاً [علی المذھب] المفتی بہ ۔(الدرالمختارمع الشامي :۲/۳۰۷)………………………