صاحب ’’ِہدایہ‘‘ فرماتے ہیں :
’’ وفي التراویح والسنن المطلقۃ جوّزہٗ مشایخ بلخ، ولم یجوّزہ مشایخنا۔ والمختار أنہٗ لایجوز في الصلوات کلھا۔(۱)
p: اور تراویح و سنتِ مؤکدہ میں ’’بلخ‘‘ کے مشائخ نے (نابالغ کی اقتدا )کو جائز قرار دیا ہے اور ہمارے مشائخ نے اس کی اجازت نہیں دی ہے اور مختار قول یہ ہے کہ (نابالغ کی اقتدا ) تمام نمازوں میں نادرست ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ اگر چہ اختلافی ہے؛ مگر صحیح اور مختار قول یہی ہے کہ کسی بھی نماز میں نابالغ کی اقتدا درست نہیں ،در مختار میں بھی اسی کو صحیح ،بل کہ اصح قرار دیا ہے ۔(۲)
حضرت مولا نامفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے بھی اسی پر فتویٰ دیا ہے ۔
چناں چہ فرماتے ہیں :
’’ فتویٰ اس پر ہے کہ نابالغ کے پیچھے تراویح بھی جائز نہیں ، اگر کوئی بالغ حافظ نہ ملے، تو ألم ترکیف… وغیرہ سے مختلف سورتیں پڑھ کر تراویح پڑھ لی جائے ۔‘‘ (۳)
------------------------------
(۱) الہدایۃ:۱/۳۶۹
(۲) قال: [ولایصح اقتداء رجل بامرأۃ وصبيمطلقاً]ولوفي جنازۃ ونفل علی الأصح۔(الدرالمختار مع الشامي:۲/۳۲۱)
(۳) امداد المفتین :۳۶۳