جواز ہے، پھر ا ن حضرات نے ان چیزوں کا استثنا کیا ہے،جو تم معلوم کر چکے، پس یہ قطعی اور روشن دلیل ہے، اس بات کی کہ ہر طاعت پر اجرت لینے کے جواز پر فتویٰ نہیں ہے؛بل کہ فتویٰ صرف ان چیزوں پر ہے، جو مذکور ہوئے ،جن میں ضرورت پائی گئی ۔‘‘(۱)
اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ ہر طاعت پر اجرت لینا جائزنہیں ہے اور نہ علما نے ا س پر فتویٰ دیا ہے؛بل کہ فتویٰ صرف ان چیزوں پر اجرت لینے کے جواز کا ہے، جو فقہاکے کلام میں مذکور ہے اور ان میں ’’ تراویح نہیں ہے‘‘ اور تراویح میں ویسی ضرورت بھی متحقق نہیں ہے؛کیوں کہ تراویح میں قرآن سنانا فرض و شعار نہیں ہے؛ بل کہ سنت ہے؛ لہٰذا اگر یہ ترک بھی ہو جائے، تو سنت کا ترک تو لازم آئے گا ،فرض و شعارِ اسلامی کا ترک لازم نہیں آئے گا؛ اس لیے اس پر اجرت جا ئز نہیں ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ اس کو اجرت کے بہ جائے ’’ہدیہ‘‘ کہا جائے تو؟
عرض ہے کہ ہدیے میں جبر و اکراہ نہیں ہوتا اور اس میں جبر ہوتا ہے؛ یہ کیسا ہدیہ ہے؟
بعض کہتے ہیں کہ ہم شرط نہیں لگاتے اور بلا شرط یہ جائز ہے؛ مگر یہ بھی غلط ہے؛ کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے ’’المعروف کالمشروط‘‘ کہ جو عرف میں رائج ہو، وہ ایسا ہے، جیسے شرط کیا ہوا ہو؛ لہٰذا جب تراویح پر دینے لینے کا رواج ہے، تو وہ شرط ہی کی طرح ہے ؛اس لیے کہ شرط نہ کرنے سے بھی یہ اجرت جائز نہیں ہوتی۔
بعض نے یہ بھی حیلہ بیان کیا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں
------------------------------
(۱) قال: وقداتفقت کلمتھم جمیعاً علی التصریح بأصل المذھب من عدم الجواز ، ثم استثنوا بعدہٗ ما علمتہ فھذا دلیل قاطع وبرھان ساطع علیٰ أن المفتیٰ بہٖ لیس ھو جواز الاستئجار علی کل طاعۃ ، بل علی ما ذکروہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاھرۃ۔ (الشامي:۹/۷۶)