کے اصل حکم سے ضرورت کی بنا پر الگ کیا ہے اور ان پر اجرت لینے دینے کو جائز قرار دیا ہے ، ضرورت یہ ہے کہ’’ ان چیزوں پر اجرت نہ دی جائے، تو یہ اہم فرائض و شرائعِ اسلام ضائع ہو جائیں گے۔‘‘
چناں چہ ’’ہدایہ‘‘ میں تعلیمِ قرآن پر اجرت کے جواز کا قول نقل کرکے فرمایا ہے کہ
یہ جائز؛بل کہ اچھا اس لیے ہے کہ آج دینی امور میں سستی غالب ہے ،پس اگر اجرت سے منع کریں ،توحفظِ قرآن ضائع ہو جائے گا۔ (۱)
معلوم ہوا کہ قرآن کی حفاطت و حفظِ قرآن جیسے فریضے کی بقا کے واسطے تعلیمِ قرآن کو جائز قرار دیا ہے ، اسی طرح امامت ، اذان ، وغیرہ پر اجرت کا جواز بھی اسی ضرورت کے پیشِ نظر ہے ۔
چناں چہ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ وقد اتفقت کلمتھم جمیعاً في الشروح والفتاویٰ علی التعلیل بالضرورۃ ۔‘‘
p: تمام علما کا کلام اس پر متفق ہے کہ (ان چیزوں پر اجرت کے جواز)کی علت و وجہ ضرورت ہے؛ یعنی ضرورت کی وجہ سے اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔(۲)
آگے چل کر بہت صاف بات کہتے ہیں کہ
تمام مشائخ کا کلام اس پر متفق ہے کہ اصل مذہب عدمِ
------------------------------
(۱) قال: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم ؛ لأنہ ظھر التواني في الأمور الدینیۃ ، ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ (الہدایۃ:۶/۲۹۶)
(۲) ردالمحتار:۹/۷۶