p: ہمارے نزدیک اصل یہ ہے کہ اجارہ جائز نہیں ، نہ طاعات پر نہ گناہوں کے کام پر۔
اسی طرح در مختار ، کنز الدقائق، قدوری وغیرہ کتبِ فقہ میں اس کی تصریح موجود ہے اور تراویح کا یا قرآن پڑھنے کا طاعت یا عبادت ہوناظاہر ہے؛ اس لیے اس حرمت کے حکم میں وہ بھی داخل ہے ، پس یہ اجرت لینے دینے کا رواج صریح حرام و ناجائز ہے۔(۱)
اور فقہائے احناف کااس سلسلے میں مستدل احادیث ہیں ، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قرآن پڑھو، مگر اس کے ذریعے مت کھائو۔
ایک اور حدیث میں فرمایا کہ وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈی ہی ہڈی ہوگا،جس پر گوشت نہ ہوگا۔(۲)
اب رہی یہ بحث کہ علما و ائمہ ٔ فقہ نے اذان، امامت ، تعلیم ِقرآن و فقہ پر اجرت کو کیسے جائز قرار دیا اور اگر ان پر اجرت جائز ہے، تو پھر تراویح پر کیوں جائز نہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضراتِ ائمۂ فقہ نے ان بعض عبادات وطاعات کوحرمت
------------------------------
(۱) مختصرالقدوري:۱۰۴ ، المبسوط للسرخسي :۱۶/۲۷،الشامي:۹/۷۶، کنزالدقائق: ۸/۳۳، مجمع الأنھر:۳/۵۳۲،الفتاویٰ الہندیۃ :۴/۵۰۷، الاختیارلتعلیل المختار:۲/۵۹)
(۲) عن عبدالرحمن بن شبل قال: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: اقرؤوا القرآن ولا تغلوا فیہ ولا تجفوا عنہ ولاتأکلوابہٖ ولاتستکثروابہٖ ۔
(مسند أبویعلیٰ: ۳/۸۸،الرقم،۱۵۱۸، مجمع الزوائد:۴/۱۷۰ ،الرقم: ۶۴۴۵، اتحاف الخیرہ : ۶/۳۴۷،الرقم،۵۹۹۷،نصب الرایۃ :۴/۱۳۵ ،الرقم، ۶۸۱۸، الدرایۃ:۲/۱۸۸،الرقم: ۸۶۶ )