p: یعنی اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ مثانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے اورپیشاب جونکلتاہے، وہ بہ طریق ِترشح نکلتاہے اور یہ کلام دراصل طب سے متعلق ہے ۔
اس سے معلوم ہواکہ حضراتِ فقہا نے منفذ ہونے نہ ہونے کی تحقیق کوبابِ فقہ سے نہیں ؛ بل کہ علمِ تشریح سے متعلق قراردیاہے ،جس کوجاننے کے وہ مدعی نہیں ؛بل کہ جس کے پاس جوبات اس علم سے ثابت ہوئی،اس نے اس کے متعلق فتویٰ دیاہے؛ لہٰذا اس قسم کی جدید تحقیقات پر بھروسہ کرکے مسائلِ فقہ پرغورکرنادرست ہے ؛کیوں کہ فقہا نے بھی اس پراعتمادکیاہے ۔
۲- دوسری بات یہ ہے کہ جن مسائل کی بنیادِ علم تشریح ِاعضا پرنہیں ؛بل کہ قرآن یا حدیث کی نص پر رکھی گئی ہے ، ان میں اگرچہ فقہا نے توضیح مطلب وافہام وتفہیم کے لیے اپنے زمانے کی تحقیقات بھی پیش کی ہوں ؛لیکن جدید تحقیقات کی روسے ان مسائل میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جاسکتی ؛ کیوں کہ یہاں مسئلے کی بنیاد قرآن وحدیث کی نصوص ہیں ۔(۱)
اس اصول پرکہاجائے گاکہ بہ حالت ِروزہ سرمہ لگانا؛چوں کہ نص سے ثابت ہے؛ لہٰذا سرمہ لگانامفسد ِصوم نہیں ہے ؛کیوں کہ اس مسئلے کی بنیاد نص ہے ،نہ کہ علمِ تشریح کی تحقیقات؛ لہٰذا سرمے کے جواز اورغیرمفسدہونے میں کسی جدید تحقیق کی بنا پر ترمیم کی گنجائش نہ ہوگی۔
اب رہی یہ بات کہ آنکھ میں سرمہ ڈالنے کاجوازاوراس کاغیرمفسد ہوناکون سی
------------------------------
(۱) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ’’امداد الفتاوی‘‘ میں ان دونوں اصولوں کی تصریح فرمائی ہے ۔
دیکھو:امدادالفتاویٰ،۲/۱۵۸