جب یہ بات معلوم ہو گئی، تو اب یہ دیکھنا چاہیے کہ عام طور پر جو انجکشن لگائے جاتے ہیں ، وہ رگوں میں دیے جاتے ہیں اور یہ رگیں ، نہ توجوف ہیں اور نہ منفذِ اصلی؛ اسی طرح گوشت میں یا گوشت و پوست کے درمیان میں جو انجکشن لگائے جاتے ہیں ، وہ بھی منفذِ اصلیہ میں نہیں ہے؛لہٰذا مسئلہ صاف ہو گیا کہ انجکشن سے روزہ فاسد نہیں ہو تا ۔
اس کے بعد آیئے ، انجکشن کے مقصد کے لحاظ سے انجکشن کا حکم معلوم کرتے ہیں :
انجکشن کبھی تو بیماری میں ضرورت کی وجہ سے لیا جاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے دوائی بدن میں پہنچائی جا سکے اور کبھی محض اس لیے لیا جاتا ہے کہ بدن میں قوت و طاقت پیدا ہو اور اس کے لیے غذا پہنچائی جائے ؛ مگر روزے کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے اس میں وہی بات ملحوظ رکھنا چاہیے، جو اوپر عرض کی گئی کہ انجکشن منفذِ اصلی سے نہیں دیا جاتا؛اس لیے انجکشن کی کسی بھی صورت میں اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، خواہ مقصد دوائی ضرورت ہو یا غذائی ضرورت؛کیوں کہ روزے کے فاسد ہونے کی علت نہیں پائی گئی، جیسا کہ تفصیلاً عرض کیا گیا ۔
ہاں ! انجکشن لگانے کے مقصد کے پیش ِنظراس کے جائز ہونے یا مکروہ ہونے میں اختلاف ہو سکتا ہے ،کہ بلا ضرورت روزے میں انجکشن لینا مکروہ ہو گا اور ضرورت میں لینا مکروہ نہ ہو گا اور ظاہر ہے کہ دوا تو ضرورت ہے؛ مگر غذا روزے کی حالت میں کوئی ضرورت نہیں ؛بل کہ روزے کی حقیقت کے خلاف ہے ؛لہٰذا اول صورت مکروہ نہیں اور دوسری صورت مکروہ ہوگی ۔
اور اس کی فقہی نظیر یہ ہے کہ فقہا نے لکھا ہے کہ’’ روزے کی حالت میں اطمینان حاصل کرنے کی غرض سے غسل کرنے ،بھیگے ہوئے کپڑے بدن یا سر پر لپیٹنے اور سر