پر پانی ڈالنے کی امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اجازت دی ہے ؛مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے اور مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روزے میں اس طرح کرنا گویا بے چینی و پریشانی کا اظہار ہے اور یہ بات کراہت سے خالی نہیں ‘‘۔
امام شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
’’ وإنما کرہ الإمام الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فیھا من إظھار الضجر في إقامۃ العبادۃ لا لأنہٗ مفطر‘‘۔(۱)
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ایک تو یہ کہ روزے میں پانی کا جسم پر یا سر پر ڈالنا ،غسل کرنا ،جسم پر کپڑا لپیٹنا؛ مفسد و مفطرِ صوم نہیں ۔ دوسرے یہ کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ اس لیے کہا ہے کہ اس عمل سے عبادت سے بے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ اسی طرح جب کوئی بلا ضرورت ایسا انجکشن لیتا ہے،جو غذا فراہم کرتا ہے، تو اس سے بھی اگرچہ کہ روزہ نہیں ٹوٹتا ؛لیکن روزے سے پریشانی وبے چینی کا مظاہرہ ہوتا ہے؛ اس لیے یہ مکروہ ہوگا،اس کے بر خلاف دوا کے طور پر انجکشن لینا ایک ضرورت ہے اور اس سے روزہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے اور پریشانی سے حفاظت کا سامان ہوتاہے؛اس لیے دوا کے طور پر لینا بلا کراہت جائز ہے ، جیسے پانی سے تر کیا ہوا کپڑا سر یا بدن پر لپیٹنا ضرورت پر جائز ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور بعض صحابہ رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ’’ اسی پر فتویٰ ہے ‘‘؛کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزے کی حالت میں پیاس کی وجہ سے یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالا تھا۔ اس کو
------------------------------
(۱) الشامي:۳/۳۶۷،البحر الرائق: ۲/۴۷۱