ہے؛ وجہ اس کی بھی یہی ہے کہ اس کا اثر بدن میں جو محسوس کیا جا تا ہے، وہ در اصل مسامات کے ذریعے پہنچتا ہے ،کسی منفذِ اصلی سے نہیں پہنچتا ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ والمفطرأنماھوالداخل من المنافذ،للا تفاق علی أن من اغتسل في ماء ، فوجد في باطنہٖ أنہٗ لا یفطر ۔(۱)
(۴) فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی کو پیٹ میں یا سر کے اندر زخم ہو جائے اور وہ اس زخم میں اندر دوا پہنچائے، تو اس سے اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا؛ لیکن ان کے علاوہ کسی اور جگہ زخم ہو اور وہاں دوائی لگائی جائے، تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔
علامہ نسفی رحمہ اللہ نے’’ کنز الدقائق ‘‘ میں فرمایا کہ
’’ داوی جائفۃ أو آمۃ بدواء ووصل الدواء الی جوفہ أو دماغہ أفطر ‘‘ ۔(۲)
اس کی وجہ یہی ہے کہ پیٹ کا زخم، جس کو’’ جَائِفَۃ ‘‘کہتے ہیں ، اس میں دوا ڈالنے سے وہ جوفِ معدے میں پہنچ جاتی ہے اور سرکے اندر دماغ کے زخم میں دوا ڈالی جائے، تو وہ جوفِ دماغ میں پہنچتی ہے؛ اس لیے اس کو مفسد قرار دیا گیا ۔
(۵) مرد کی پیشاب گاہ میں اگر کوئی دوا ٹپکائی جائے اور وہ مثانے تک پہنچ جائے، تو فقہا میں اختلاف ہے کہ اس سے روزہ فاسد ہوگا یا نہیں ؟ امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ فاسد نہ ہوگا اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا ،اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مثانہ اور جوفِ بطن میں کوئی منفذِ اصلی
------------------------------
(۱) الشامي: ۳/۳۶۷
(۲) الکنزمع البحر: ۲/۴۸۸