اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس شخص کو سب کے ساتھ عید کرنا چاہیے اور زائد روزہ بھی رکھنا چاہیے اور حضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے شوافع کے ایک قول سے اس کاحکم مستنبط کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’ ظاہر یہ ہے کہ یہ شخص ہمارے ملک کے لوگوں کی اتباع کرے، اس کی نظیر شافعیہ کا یہ قول ہے کہ جو شخص ایک شہر میں ظہر کی نماز پڑھ کر ، اس کے فوراًبعد ایک ایسے شہر میں آگیا،جہاں ابھی ظہر کا وقت نہیں آیا تھا ، تو وہ شخص ان دوسرے شہر والوں کے ساتھ بھی (ظہر کی) نمازدوبارہ پڑھے گا۔‘‘(۱)
لہٰذااس شخص کو چاہیے کہ یہاں سب کے ساتھ روزہ رکھے اور سب کے ساتھ عید کرے ،خواہ کچھ روزے زیادہ ہو جائیں ۔
۲- اسی سے اس کے بر عکس صورت کا حکم بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک شخص مثلاً ہندوستا ن سے ایسے ملک گیا، جہا ں دو ایک دن پہلے سے روزے شروع ہو چکے تھے اور وہاں کے لوگوں کے لحاظ سے اس شخص کے روزے کم ہوجائیں ، تو اس کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ جب یہاں کے لوگ اپنے حساب سے عید کریں ، تو یہ شخص کیا ان کے ساتھ عید کرے یا نہ کرے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کے روزوں میں جو کمی ہے، اس کا کیا کرے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص کو عید ان ہی لوگوں کے ساتھ کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ آدمی جس جگہ ہو تا ہے، وہیں کے لوگوں کے ساتھ اس کا صوم و افطار ہو تا ہے ۔
حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
»الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والأضحیٰ
------------------------------
(۱) معارف السنن: ۵/۳۳۷