سلم و اجارہ کی مدتیں اور دن کی ابتدا کو دیکھا جائے گا، پھر (سال کی) چار فصلوں اور موسموں میں سے ہر ایک موسم کو دن کے چھوٹے بڑے ہو نے کے حساب سے اندازہ کیا جائے گا ۔(مثلاً: گرمی کا دن بڑا ہوتا ہے اور سردی کا چھوٹا) اسی حساب سے مدت مقرر کی جائے گی ،شوافع کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے اور ہم حنفی بھی اسی کے مطابق کہتے ہیں ؛کیوں کہ نمازوں کے بارے میں اندازہ کرنے کی بات سب کے نزدیک کہی گئی ہے۔
اس کی صورت یہ ہے کہ ایسے طویل الاوقات علاقوں سے متصل وہ علاقہ جہاں معمولی اوقات ہیں ، وہاں کے حساب سے روزہ و سحری و افطار سب کریں گے، کہ جس دن وہاں روزہ شروع ہوا ، اسی کے حساب سے یہاں روزہ رکھ لیں ، پھر دن ورات کی تقسیم گھنٹوں کے حساب سے کر کے ، یہ دیکھ لیں کہ اس قریبی علاقے میں غروب کے وقت یہاں کتنے بجے ہیں اور سحری کے وقت یہاں کتنے بجے ہیں ، اسی کے حساب سے سحری و افطاری کریں ۔(۱)
یہاں بعض علمانے احتیاطاً یہ بھی کہاہے کہ ایسے طویل الاوقات علاقے میں جہاں ہمیشہ اوقات کا مسئلہ ایسا ہی رہتا ہے ،وہاں اوپر کی صورت پر عمل کریں ، تو روزے ادا ہوجائیں گے اور اگر بعض موسموں میں ایسا ہوتا ہے اور رمضان ایسے ہی طویل الاوقات دنوں میں آگیا، تو وہاں کے لوگوں پر اداء ً روزے فرض نہیں ؛بل کہ دوسرے معمولی ایام میں ان کی قضا کرلیں ۔(۲)
------------------------------
(۱) اس کے لیے دیکھیے : امداد الفتاویٰ -۱/ ۵۰۴-۵۰۵
(۲) حضرت تھانوی کی یہی رائے ہے ،امداد الفتا ویٰ: ۱/۵۰۵