تعلیم الاسلام مکمل- یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلامی فرائض میں سے زکوٰۃ کا بیان سوال: زکوٰۃ کسے کہتے ہیں ؟ جواب: مال کے اُس خاص حصے کو زکوٰۃ کہتے ہیں جس کو خدا کے حکم کے موافق فقیروں ، ُمحتاجوں وغیرہ کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے ، یو ں سمجھو کہ نماز روزہ بدنی عبادت ہے اور زکوٰۃ مالی عبادت ہے ۔سوال: زکوٰۃ فرض ہے یا واجب ہے ؟ جواب: زکوٰۃ دینا فرض ہے ۔ قرآنِ مجید کی آیتوں اور حضور رسول کریم ﷺکی حدیثوں سے اس کی فرضیت ثابت ہے۔ جو شخص زکوٰۃ فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔سوال: زکوٰۃ فرض ہونے کی کتنی شرطیں ہیں ؟ جواب: مسلمان ، آزاد ، عاقل ، بالغ ہونا ، مالک ِ نصاب ہونا ، نصاب کا اپنی اصلی حاجتوں سے زیادہ اور قرض سے بچا ہوا ہونا،اور مالک ہونے کے بعد نصاب پر ایک سال گزر جانا زکوٰۃ فرض ہونے کی شرطیں ہیں ۔ پس کافر اور غلام اور مجنون اور نابالغ کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ۔ اسی طرح جس کے پاس نصاب سے کم مال ہو یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض داربھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا تو ان حالتوں میں بھی زکوٰ ۃفرض نہیں ۔مالِ زکوٰۃ اور نصاب کا بیان سوال: کس کس مال میں زکوٰۃ فرض ہے ؟ جواب: چاندی ، سونے اور ہر قسم کے مالِ تجارت میں زکوٰۃ فرض ہے ۔سوال: چاندی سونے سے اُن کے سکے جیسے اشرفیاں روپے مراد ہیں یا اور کچھ؟ جواب: چاندی سونے کی تمام چیزوں میں زکوٰۃ فرض ہے جیسے اشرفیاں ، روپے، زیور ، برتن ، گوٹہ ، ٹھپہ وغیرہ ۔سوال: جواہرات پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں ؟ جواب: جواہرات اگر تجارت کے لئے ہوں تو زکوٰۃ فرض ہے اور تجارت کے لئے نہ ہو ں تو زکوٰۃ فرض نہیں، چاہے کتنی ہی مالیت کے ہوں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے پا س تانبے وغیرہ کے برتن نصاب سے زیادہ قیمت کے ہوں یا کوئی مکان یا دکان وغیرہ نصاب سے زیادہ قیمت کی ہو اور اس کا کرایہ بھی آتا ہو یا چاندی سونے کے سوا اور کسی قسم کا سامان اور اسباب ہے، لیکن یہ تمام چیزیں تجارت کے لئے نہیں ہیں تو ان میں سے کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔سوال: سرکاری نوٹ اگر کسی کے پاس بقدر ِ نصاب ہوں تو کیا حکم ہے ؟ جواب: اُس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔سوال: اگر کسی کے پاس تھوڑی سی چاندی اور تھوڑا سا سونا ہے ، دونوں میں سے نصاب کسی کا پورا نہیں تو اُس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں ؟ جواب: اِ س صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر دیکھو کہ دونوں میں سے کسی کا نصاب پورا ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر کسی کا نصاب پورا ہوجائے تو اُس کے حساب سے زکوٰۃ دو اور دونوں میں سے کسی کا نصاب پورا نہ ہو تو زکوٰۃ فرض نہیں ۔سوال: اگر کسی کے پاس صرف تین چار تولہ سونا ہے اور اُس کی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا زیادہ ہے ،لیکن چاندی کی اور کوئی چیز اس کے پاس نہیں ہے، نہ روپیہ نہ زیور وغیرہ تو اُس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں ؟ جواب: اِ س صورت میں اُس پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔سوال: مالِ تجارت سے کیا مراد ہے ؟ جواب: جو مال کہ بیچنے اور نفع کمانے کے لئے ہو وہ مالِ تجارت ہے ، خواہ کسی قسم کا مال ہو جیسے غلّہ کپڑا ، قند، جوتیاں ، بساط خانہ کا اسباب وغیرہ ۔سوال: نصاب کسے کہتے ہیں ؟ جواب: جن مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے شریعت نے اُن کی خاص خاص مقدار مُقرَّر کردی ہے ، جب اتنی مقدار کسی کے پاس پوری ہوجائے تب زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ۔ اس مقدار کو نصاب کہتے ہیں ۔سوال: چاندی کا نصاب کیا ہے ؟ جواب: چاندی کا نصاب چو ّن( ۵۴)تولے دو( ۲) ماشے بھروزن کی چاندی ہے۔ (تولہ سے انگریزی روپے کا وزن مراد ہے )۔سوال: چو ّن تولے دو ماشے چاندی کی زکوٰۃ کتنی ہوئی ؟ جواب: زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ دینا فرض ہے ۔ پس چو ّن تولے دو ماشے کی زکوٰۃ ایک تولہ چار ماشہ دو رتی چاندی ہوئی۔سوال: سونے کا نصاب کیا ہے ؟ جواب: سونے کا نصاب سات تولے ساڑھے آٹھ ماشے سونا ہے ۔ اس کی زکوٰۃ دو ماشے ڈھائی رتی سونا ہوئی ۔سوال: تجارتی مال کا نصاب کیا ہے ؟ جواب: تجارتی مال کی سونے یا چاندی سے قیمت لگائو ۔ پھر چاندی یا سونے کا نصاب قائم کرکے اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرو ۔زکوٰۃ ادا کرنے کا بیان سوال: زکوٰۃ ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ جواب: جس قدر زکوٰۃ واجب ہوئی ہے وہ کسی مستحق کو خاص خدا کے واسطے دیدو اور اُسے مالک بنا دو۔ کسی خدمت یا کسی کام کی اُجرت میں زکوٰۃ (۱)دیناجائز نہیں ۔ ہاں اگر مالِ زکوٰۃ سے فقیروں کے لئے کوئی چیز خرید کر اُن کو تقسیم کر دو تو جائز ہے ۔سوال: زکوٰۃ کب ادا کرنی چاہئے ؟ جواب: جب بقدرِ نصاب مال پر قمری حساب سے سال پورا ہوجائے تو فوراً زکوٰۃ ادا کرنا چاہئے ، دیر لگانا اچھانہیں ۔سوال: سال گذرنے سے پہلے اگر کوئی شخص زکوٰۃ دیدے تو جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: اگر بقدرِ نصاب مال کا مالک سال گذر نے سے پہلے زکوٰۃ ادا کر دے تو جائز ہے ۔سوال: زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرنی بھی ضروری ہے یا نہیں ؟ جواب: ہاں! زکوٰۃ دیتے وقت یا کم سے کم مالِ زکوٰۃ نکال کرعلیحدہ رکھنے کے وقت یہ نیت کرنی ضروری ہے کہ یہ مال میں زکوٰۃ میں دیتا ہوں یازکوٰۃ کے لئے علیحدہ کرتا ہوں ۔ اگر بغیر خیال زکوٰۃ کسی کو روپیہ دیدیا اور دینے کے بعد اُس کوزکوٰۃ کے حساب میں لگا لیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔سوال: جس کوزکوٰۃ دی جائے اُسے یہ بتا دینا کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے ضروری ہے یا نہیں؟ جواب: یہ ضروری نہیں، بلکہ اگر انعام کے نام سے یا کسی غریب کے بچوں کو عیدی کے نام سے دیدو جب بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ۔سوال: اگر سال گذر نے کے بعد ابھی زکوٰۃ نہیں دی تھی کہ سارا مال ضائع ہوگیا تو کیا حکم ہے ؟ جواب: اُس کی زکوٰۃ بھی اُس کے ذمّــے سے ساقط ہوگئی ۔سوال: سال گذر نے کے بعد اگر سارا مال خدا کی راہ میں دیدیا تو کیا حکم ہے ؟ جواب: اس کی زکوٰۃ بھی مُعاف ہوگئی ۔سوال: اگر سال گذرنے کے بعد تھوڑا مال ضائع ہوگیا یا خیرات کردیا تو کیا حکم ہے ؟ جواب: جس قدر مال ضائع ہوا یا خیرات کیا اُس کی زکوٰۃ بھی ساقط ہوگئی ، باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے ۔سوال: اگر چاندی کی زکوٰۃ چاندی سے ادا کرے تو وزن کا اعتبار ہے یا قیمت کا ؟ جواب: وزن کا اعتبار ہے، مثلاً کسی کے پاس سو روپے ہیں، سال گذر نے کے بعد اُسے ڈھائی تولہ چاندی دینی چاہئے ۔اب اُسے اختیارہے کہ وہ دو روپے اور ایک اٹھنّی دیدے یا چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولے کا دیدے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ،لیکن اگر چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولہ کا قیمت میں دو روپے کا ہو تو دو روپے دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔سوال: چاندی کی زکوٰۃ واجب ہوئی تو کوئی دوسری چیز بھی زکوٰۃ میں دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ جواب: ہاں !جتنی چاندی زکوٰۃ میں واجب ہوتی ہے اتنی ہی چاندی کی قیمت کی کوئی دوسری چیز مثلاًکپڑا یا غلہ خرید کر دینا بھی درست ہے ۔