تعلیم الاسلام مکمل- یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال: صفت ِ سمع اور بصر سے کیا مراد ہے ؟ جواب: سمع کے معنی سننا اور بصر کے معنی دیکھنا یعنی خداتعالیٰ ہر بات کو سنتا اور ہرچیز کو دیکھتاہے ،لیکن مخلوق کی طرح اس کے کان نہیں ہیں اور نہ مخلوق کی طرح اس کی آنکھیں ہیں ، نہ اس کے کانوں اور آنکھوں کی کوئی شکل اور صورت ہے ، ہلکی سے ہلکی آواز سنتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو دیکھتا ہے ۔ اس کے سننے اور دیکھنے میں نزدیک دور ، اندھیرے اُجالے کا کوئی فرق نہیں ۔ سوال: صفت ِ کلام کے کیا معنی ہیں ؟ جواب: کلام کے معنی ’’بولنا ، بات کرنا ‘‘ ہیں ۔ خداتعالیٰ کیلئے یہ صفت بھی ثابت ہے ،لیکن اس کے لئے مخلوق جیسی زبان نہیں ہے ۔ سوال: اگر خداتعالیٰ کی زبان نہیں تو وہ باتیں کیسے کرتاہے ؟ جواب: مخلوق بغیر زبان کے بات نہیں کرسکتی، کیونکہ مخلوق اپنے تمام کاموں میں اسباب اور آلات کی محتاج ہے ،لیکن خداتعالیٰ جو اپنے کسی کام میں کسی چیز کا محتاج نہیں وہ کلام کرنے میں بھی زبان کا محتاج نہیں ۔ اگر وہ بھی باتیں کرنے کے لئے زبان کا محتاج ہو تو وہ خدااور واجبُ الوجود نہیں ہوسکتا ۔ سوال: صفت ِخَلْق اورتَکْوِین کے کیا معنی ہیں ؟ جواب: خلق کے معنی پیدا کرنا اور تکوِین کے معنی وجود میں لانا ۔ خداتعالیٰ کے لئے یہ صفت بھی ثابت ہے ۔ وہی تمام عالَم کا خالق (پیدا کرنے والا ) مُکَوِّن (وجود میں لانے والا ) ہے ۔سوال: ان صفات کے علاوہ خداتعالیٰ کی اور صفتیں بھی ہیں یا نہیں ؟ جواب: ہاں! خداتعالیٰ کی اور بھی بہت سی صفتیں ہیں جیسے مارنا ، زندہ کرنا ، رزق دینا ، عزّت دینا ، ذلّت دینا وغیرہ، اور خداتعالیٰ کی تمام صفتیں اَزَلی اَبَدی اور قدیم ہیں ،ان میں کمی بیشی تغیر تبدّل نہیں ہوسکتا ۔خداتعالیٰ کی کتابیں سوال: اسلامی عقائد میں بتایا گیا ہے کہ قرآنِ مجید تیئس(۲۳) برس میں اُترا اور قرآنِ مجید میں خداتعالیٰ نے فرمایا ہے:’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‘‘(البقرہ :۱۸۵) یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآنِ مجید نازل کیا گیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید رمضان کے مہینہ میں اترا۔ اور قرآنِ مجید میں دوسری جگہ فرمایا ’’إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‘‘ (القدر :۱) یعنی ہم نے اس (قرآنِ مجید ) کو شب ِقدر میں اُتارا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید شب ِقدر میں اُترا ۔ یہ تینوں باتیں آپس میں ایک دوسرے کی مُخالف ہیں، ان میںسے کون سی بات صحیح ہے ؟