تعلیم الاسلام مکمل- یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رمضان شریف کے روزوں کا بیان سوال: رمضان شریف کے روزوں کی کیا فضیلت ہے ؟ جواب: رمضان شریف کے روزوں کا بہت بڑا ثواب ہے اور بہت سی فضیلتیں حدیث شریف میں آئی ہیں، مثلاً حضور سولِ کریمﷺنے فرمایا ہے کہ جو شخص خاص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے رمضان شریف کے روزے رکھے تو اُس کے پچھلے سب گناہ مُعاف ہوجائیںگے ۔ دوسری حدیث میں حضور ﷺنے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بھَبک(بوء) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔ تیسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود اُس کی جزادوں گا ۔ اسی طرح اور بھی بہت سی فضیلتیں حدیثوں میں آئی ہیں ۔ سوال: رمضان شریف کے روزے کن لوگوں پر فرض ہیں ؟ جواب: ہر مسلمان عاقل ، بالغ مرد عورت پر فرض ہیں ۔ اُن کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر اور بلاعذر چھوڑنے والا سخت گنہگار اور فاسق ہے ۔ اگرچہ نابالغ پر نماز روزہ فرض نہیں، لیکن عادت ڈالنے کے لئے بلوغ سے پہلے ہی روزہ رکھوانے اور نماز پڑھوانے کا حکم ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بچہ سات بر س کا ہوجائے تو نماز کا اُسے حکم کرو اور جب دس برس کا ہوجائے تو اُسے نماز کے لئے (اگر ضرورت ہوتو ) مارنا بھی چاہئے ۔ اسی طرح جب روزہ رکھنے کی طاقت ہوجائے تو جتنے روزے رکھ سکتا ہو اُتنے روزے اُس سے رکھوانے چاہئیں ۔ سوال: وہ کون کونسے عذر ہیں جن سے روزہ نہ رکھنا جائز ہوجاتا ہے ؟ جواب: (۱) سفر یعنی مسافر کو حالت ِ سفر میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے، لیکن اگر سفر میں مَشَقَّت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے ۔ (۲) مرض یعنی ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ۔ (۳) بہت بُڈّھا ہونا ۔ (۴) حاملہ ہونا ، جب کہ عورت کو یا حمل کو روزے سے نقصان پہنچنے کا گمانِ غالب ہو ۔ (۵) دودھ پلانا ، جب کہ دودھ پلانے والی کو یا بچے کو روزے سے نقصان پہنچتا ہو ۔ (۶) روزے سے اس قدر بھوک پیاس کا غلبہ ہوکہ جان نکل جانے کا اندیشہ ہوجائے ۔ (۷) اور حیض و نفاس کی حالتوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ چاند دیکھنے اور گواہی کا بیان سوال: رمضان شریف کا چاند دیکھنے کا کیا حکم ہے ؟ جواب: شعبان کی انتیسو۲۹یں تاریخ کو رمضان شریف کا چاند دیکھنا، یعنی دیکھنے کی کوشش کرنا اور َمطلع پر ڈھونڈنا واجب ہے اورر جب کی انتیسویں تاریخ کو شعبان کا چاند دیکھنا مستحب ہے تاکہ شعبان کی انتیسویں تاریخ کا حساب ٹھیک معلوم رہے ۔ا گر شعبان کی انتیسویں تاریخ کو رمضان شریف کا چاند دیکھ لیا جائے تو صبح کو روزہ رکھو اور چاند نظر نہ آئے اور مطلع صاف تھا تو صبح کو روزہ نہ رکھو اور اگر مطلع پر ابریا غبار تھا تو صبح کو دس گیارہ بجے تک کچھ کھانا پینا نہیں چاہئے ۔ اگر اُس وقت تک کہیں سے چاند دیکھے جانے کی خبر ُمعتبر طریقے سے آجائے تو روزے کی نیت کرلو ۔ اور نہیں تو اب کھائو پیو ،لیکن انتیس شعبان کو چاند نہ ہونے کی صورت میں صبح کے روزے کی اس طرح نیت کرنا کہ چاند ہوگیا ہوگا تو رمضان کا روزہ، نہیں تو نفل کا ہوجائے گا ، مکروہ ہے ۔ سوال: رمضان شریف کے چاند کے لئے ُمعتبر شہادت کیا ہے ؟ جواب: اگر مطلع صاف نہ ہو مثلاً ابر یا غبار وغیرہ ہوتو رمضان شریف کے چاند کے لئے ایک دیندار پرہیزگار سچے آدمی کی گواہی ُمعتبر ہے، چاہے مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام ، اسی طرح جس شخص کا فاسق ہونا ظاہر نہیں اور ظاہر میں دیندار پرہیزگار معلوم ہوتا ہو اُس کی گواہی بھی ُمعتبر ہے۔سوال: عید کے چاند کے لئے ُمعتبر شہادت کیا ہے ؟ جواب: مطلع صاف نہ ہونے کی صورت میں عیدُ الفطر اور عیدُالاضحی کے چاند کے لئے دوپرہیزگار سچے مَردوں یا اسی طرح کے ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی شرط ہے ۔سوال: اگر مطلع صاف ہوتو پھر کتنے آدمیوں کی شہادت معتبر ہوگی ؟ جواب: اگرمطلع صاف ہوتو رمضان شریف اور دونوں عیدوں کے چاند کے لئےکم از کم اتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے کہ اُتنے آدمیوں کے جھوٹ بولنے اور بناوٹی بات کہنے کا دل کو یقین نہ ہوسکے، بلکہ اُن کی گواہی سے دل کو چاند دیکھے جانے کا گمانِ غالب ہوجائے ۔سوال: اگر کسی دور کے شہر سے چاند دیکھنے کی خبر آئے تو مُعتبر ہوگی یا نہیں ؟ جواب: چاہے کتنی ہی دور سے خبر آئے معتبر ہے، مثلاً برہماوالوں نے چاند نہیں دیکھا اور کسی بمبئی کے شخص نے اُن کے سامنے چاند دیکھنے کی گواہی دی تو ان پر ایک روزہ کی قضا لازم ہوگی ۔ ہاں شرط یہ ہے کہ خبر ایسے طریقے سے آئے جسکا شریعت میں اعتبار ہے ، تار کی خبر معتبر نہیں ۔سوال: اگر کسی شخص نے رمضان کا چاند دیکھا اور اُس کی گواہی قبول نہیں کی گئی اور اس کے علاوہ اور کسی نے چاند نہیں دیکھا ،نہ روزے رکھے گئے تو اُس شخص پر روزہ فرض ہے یا نہیں ؟ جواب: ہاں! اُس پر روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر اُس کے حساب سے تیس روزے پورے ہوجائیں اور عید کا چاند نہ دیکھا جائے تو یہ شخص اور لوگوں کے ساتھ اکتیسواں روزہ بھی رکھے ۔نیّت کا بیان سوال: کیا روزے کے لئے نیت کرنا ضروری ہے ؟ جواب: ہاں! روزے کے لئے نیت کرنا شرط ہے ۔ اگر اتفاقی طور پر صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور صحبت سے بچا رہا، لیکن روزہ کی نیت نہیں تھی تو روزہ نہ ہوگا ۔سوال: نیت کس وقت کرنی ضروری ہے ؟ جواب: رمضان شریف اور نذرِ معیّن اور سنت اور نفل روزوں کی نیت رات سے کرے یا صبح کو آدھے دن سے پہلے پہلے تک جائز ہے ۔ دن سے مراد شرعی دن ہے جو صبحِ صادق سے غروب ِ آفتاب تک کا نام ہے، مثلاً اگر چار بجے صبح صادق ہو اور چھ بجے آفتاب غروب ہوتو شرعی دن چودہ گھنٹے کا ہوا اور آدھادن گیارہ بجے ہوا تو گیارہ بجے سے پہلے پہلے نیت کرلینی ضروری ہے ۔ اور قضائے رمضان اور کفارے اور نذر ِ غیرُمعیّن کی نیت صبح صادق سے پہلے کرلینی ضروری ہے ۔سوال: نیت کس طرح کرنی چاہئے ؟ جواب: رمضان شریف اور نذرِ معیَّن اور سنت اور نفل رزوں کی نیت میں تو چاہے خاص اُن روزوں کا قصد کرے یا صرف یہ ارادہ کرلے کہ روزہ رکھتا ہوں یا نفل روزے کی نیت کرے ۔ بہر صورت رمضان میں رمضان کا روزہ اور نذرِ معیّن کے دن نذر کا روزہ اور باقی دنوں میں سنت یا نفل کا روزہ ہوجائے گاور نذرِ غیر معین اور کفاروں اور قضائے رمضان کی نیت میں خاص اُن روزوں کا قصد کرنا ضروری ہے ۔سوال: نیت زبان سے کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ جواب: نیت قصد اور ارادہ کرنے کو کہتے ہیں ۔دل سے ارادہ کرلینا کافی ہے ، زبان سے کہہ لے تو بہتر ہے ، نہ کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں ۔روزے کے ُمستحبَّات کا بیان سوال: روزے کے ُُمستحبَّات کیا کیا ہیں ؟ جواب: (۱) سحری کھانا ۔ (۲) رات سے نیت کرنا ۔ (۳) سحری آخری وقت میں کھانا ،بشرطیکہ صبح صادق سے یقینا پہلے فارغ ہوجائے ۔ (۴) افطار میں جلدی کرنا، جبکہ آفتاب کے غروب نہ ہونے کا شبہ نہ رہے ۔ (۵) غیبت ، جھوٹ، گالی گلوچ وغیرہ بُری باتوں سے بچنا ۔ (۶) چھوہارے یا کھجور سے ، اور یہ نہ ہوں تو پانی سے افطار کرنا ۔سوال: سحری کسے کہتے ہیں اور اُس کا وقت کیا ہے ؟ جواب: سحری اخیر رات میں صبحِ صادق سے پہلے کچھ کھانے پینے کو کہتے ہیں ۔ رات کا آخری حصہ صبحِ صادق سے پہلے پہلے اُس کا وقت ہے ۔ سحری کھانا سنت ہے اور اس کا بہت ثواب ہے ۔ بھوک نہ ہو تو ایک دو لقمے ہی کھالینے چاہئیں ۔