تعلیم الاسلام مکمل- یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بِدْعَت کا بیان سوال: کفر اور شرک کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ جواب: کفر اور شرک کے بعد بدعت بڑا گناہ ہے ۔ بدعت اُن چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآنِ مجید اور حدیث شریف میں اُس کا ثبوت نہ ملے اور رسولُ اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام اور تابعین اور تبعِ تابعین کے زمانہ میں اس کا وجود نہ ہو اور اُسے دین کا کام سمجھ کر کیا یا چھوڑا جائے ۔ بدعت بہت بُری چیز ہے ۔ حضوررسولِ مقبول ﷺنے بدعت کو مردود فرمایا ہے اور جو شخص بدعت نکالے اس کو دین کا ڈھانے والا بتایا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے ۔ سوال: بدعت کے کچھ کام بتائو؟ جواب: لوگوں نے ہزاروں بدعتیں نکالی ہیں ۔ چند بدعتیں یہ ہیں :پختہ قبریں بنانا ، قبروں پر گنبد بنا نا، دھوم دھام سے عرس کرنا ، قبروں پر چراغ جلانا ، قبروں پرچادریں اور غلاف ڈالنا ، میت کے مکان پر کھانے کے لئے جمع ہونا ، شادی میں سہرا باندھنا ، بدھی پہنانا اور ہر جائز یا مُستحب کام میں ایسی شرطیں اپنی طرف سے لگانا جن کا شریعت سے ثبوت نہ ہو، بدعت ہے ۔باقی گناہوں کا بیان سوال: کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ اور کیا کیا باتیں گناہ کی ہیں ؟ جواب: کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ بھی بہت سے گناہ ہیں جیسے جھوٹ بولنا ، نماز نہ پڑھنا ، روزہ نہ رکھنا ، زکوٰۃ نہ دینا ، باوجود مال اور طاقت ہونے کے حج نہ کرنا ، شراب پینا، چوری کرنا ، زنا کرنا ، غیبت کرنا ، جھوٹی گواہی دینا ، کسی کو ناحق مارنا ، ستانا ، چغلی کھانا ، دھوکا دینا ، ماں باپ اور استاد کی نافرمانی کرنا ، اپنے گھروں اور کمروں میں تصویریں لگانا، امانت میں خیانت کرنا ، لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنا ، ُجوا کھیلنا ، گالی دینا ، ناچ دیکھنا، سود لینا اور دینا ،ڈاڑھی منڈانا ، ٹخنوں سے نیچا پائجامہ پہننا ، فضول خرچی کرنا ، کھیل تماشوں، نا ٹکوں ، تھیٹروں میں جانا اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ ہیں جو بڑی کتابوں میں تم پڑھو گے ۔سوال: گناہ کرنے والا آدمی مسلمان رہتا ہے یا نہیں ؟ جواب: جو کوئی ایسا گناہ کرے جس میں کفر یا شرک پایا جاتا ہو وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور جو کوئی بدعت کا کام کرے تو وہ مسلمان تو رہتا ہے ،لیکن اس کا اسلام اور ایمان بہت ہی ناقص ہوجاتا ہے، ایسے شخص کو مُبْتَدِع اور بدعتی کہتے ہیں اور جو کوئی کفرو شرک اور بدعت کے علاوہ کوئی کبیرہ گناہ کرے وہ بھی مسلمان تو ہے لیکن ناقص مسلمان ہے ، اُسے فاسق کہتے ہیں ۔ سوال: اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجائے تو عذاب سے بچنے کی کیا صورت ہے ؟ جواب: توبہ کرلینے سے خداتعالیٰ گناہ معاف فرمادیتا ہے ، توبہ اُسے کہتے ہیں کہ اپنے گناہ پر شرمندہ اور پشیمان ہو اور خدا کے سامنے روکر گِڑگِڑا کر توبہ کرے کہ اے اللہ! میرا گناہ معاف کردے اور دل میں عہد کرے کہ اب کبھی گناہ نہ کروں گا ۔ یا درکھو کہ صرف زبان سے توبہ توبہ کہہ لینا اصلی توبہ نہیں ہے ۔ سوال: کیا توبہ کرلینے سے ہر قسم کے گناہ معاف ہوسکتے ہیں ؟ جواب: جو گناہ ایسے ہیں کہ کسی بندے کا اُن میں تعلق نہیں ہے ، صرف خداتعالیٰ کا حق ہے کہ وہ نافرمانی کرنے کی وجہ سے سزادے ، ایسے تمام گناہ توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں ، یہاں تک کہ کفر اور شرک کا گناہ بھی سچی توبہ سے معاف ہوجاتا ہے ،لیکن جو گناہ ایسے ہیں کہ ان میں کسی بندے کا تعلق ہے، مثلاً کسی یتیم کا مال کھالیا یا کسی پر تہمت لگائی یا ظلم کیا ، ایسے گناہوں کو حقوقُ العباد کہتے ہیں ۔ یہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کی معافی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس شخص کا حق ادا کرو یا اس سے معاف کرائو، اس کے بعد خدا کے حضور میں توبہ کرو ،جب معافی کی اُمید ہوسکتی ہے ۔ سوال: توبہ کس وقت تک قبول ہوتی ہے ؟ جواب: جب انسان مرنے لگے اور عذاب کے فرشتے اس کے سامنے آجائیں اور حلق میں دم آجائے اُس وقت اس کی توبہ مقبول نہیں اور اس حالت سے پہلے پہلے ہر وقت کی توبہ مقبول ہے ۔ سوال: اگر گنہگارآدمی بغیر توبہ کئے مرجائے تو جنت میں جائے گا یا نہیں ؟ جواب: ہاں !سوائے کافر اور مشرک کے باقی تمام گنہگار اپنے گناہوں کی سزا پاکر جنت میں جائیں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ خداتعالیٰ کفر و شرک کے علاوہ باقی گناہوں کو بغیر سزادیئے کسی کی شفاعت سے یا بغیر شفاعت بخش دے ۔ سوال: میت کو دنیا کے عزیز قریب ، رشتہ دار، دوست وغیرہ بھی کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں یا نہیں ؟ جواب: ہاں! میت کو عبادتِ بدَنی اور مالی کا ثواب پہنچتا ہے یعنی زندہ لوگ اگر کوئی نیک کام کریں، مثلاًقرآن شریف یادرود شریف پڑھیں ، خدا کی راہ میں صدقہ خیرات دیں ، کسی بھوکے کو کھانا کھلائیں تو ان کاموں کا ثواب خدا کی طرف سے انہیں ملے گا، لیکن خداتعالیٰ نے اپنی رحمت سے اتنا بھی اختیار دیا ہے کہ اگر یہ نیک کام کرنے والے اپنا ثواب کسی میت کو پہنچانا چاہیں تو خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ یا اللہ! اس کام کا ثواب میں نے فلاں شخص کو بخشا تو اللہ تعالیٰ اس میت کو وہ ثواب پہنچا دیتا ہے ۔ ثواب پہنچانے کے لئے کسی خاص چیز یا خاص وقت یا خاص صورت کی اپنی طرف سے تخصیص نہ کرنی چاہئے، بلکہ جو چیز جس وقت مُیسَّر ہو اُسے خدا کے واسطے کسی ُمستحق کو دے کر اس کا ثواب بخش دینا چاہئے ۔ رسم کی پابندی یا دکھاوے اور نام اور شہرت کے لئے بڑی بڑی دعوتیں کرنا یا اپنی طاقت سے زیادہ قرض اُدھارلے کر رسم پوری کرنا بہت بُرا ہے ۔