’’ہم ریڈیو سے سعودیہ میں چاند ہو جانے کی خبر سنتے ہیں ؛جب کہ ہمارے یہاں چاند نظر نہیں آتا،تو بعض لوگ اس پر روزہ رکھ لیتے ہیں اور اکثر لوگ انتظار کرتے ہیں ،اس سے بہت سخت اختلاف پیدا ہو گیا ہے ؛لہٰذا اس سلسلے میں فتویٰ دیں ؟
اس کے جواب میں فتوے میں اولا ًاختلافِ مطالع کا ذکر اور اس میں ائمہ کے مسالک کا ذکر کیا گیا ہے،پھر آخر میں لکھتے ہیں کہ جب ریڈیو یا کسی اور ذریعے سے اپنے علاقے کے مطلع کے علاوہ کسی اور جگہ چاند ہو جانے کا ثبوت ہو، تو آپ لوگوں پر لازم ہے کہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ وہاں کے حاکم کے حوالے کردیں ۔(۱)
اسی طرح ایک اور فتوے میں لکھتے ہیں کہ اگر اختلاف ہو، تو وہاں اگر مسلمان حاکم ہو، تو اس کا فیصلہ لیں اور اگر مسلمان نہ ہو، تو وہاں کے مرکز ِاسلامی کی مجلس کا فیصلہ مانیں ؛ تاکہ اس ملک کے مسلمانوں کا روزے و عید میں اتحاد باقی رہے ۔(۲)
اورسعودی عرب کے ہی ایک اور معروف عالم ’’علامہ شیخ صالح بن فوزان رحمہ اللہ ‘‘ سے سوال کیا گیا کہ
’’ اگر کسی اسلامی مملکت مثلاً: سعودی میں رمضان کے آنے کا ثبوت ہو جائے اور دوسرے ممالک میں اس کے آنے کا اعلان نہ ہو، تو کیا حکم ہے ؟کیا ہم سعودیہ کے مطابق روزہ رکھیں ؟ اور دونوں ممالک میں اختلاف ہو، تو کیا حکم ہے؟
------------------------------
(۱) فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ : ۱۰/۹۷-۹۸
(۲) فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ : ۱۰/۱۰۱-۱۰۲